اس کی خوشبو سے معطر ہے مری تنہائی
اس کی خوشبو سے معطر ہے مری تنہائی یاد اس کی مجھے تنہا نہیں ہونے دیتی ابن آدم ہوں خطا ہوتی ہے مجھ سے تسکین اس کی رحمت مجھے رسوا نہیں ہونے دیتی
اس کی خوشبو سے معطر ہے مری تنہائی یاد اس کی مجھے تنہا نہیں ہونے دیتی ابن آدم ہوں خطا ہوتی ہے مجھ سے تسکین اس کی رحمت مجھے رسوا نہیں ہونے دیتی
آسمانوں پہ نظر آتی ہے اس کی سرخی جب کسی ٹوٹے ہوئے دل پہ چھری چلتی ہے پھٹ نہ جائے کہیں قاتل کا کلیجہ افضلؔ رقص کرتے ہوئے بسمل پہ چھری چلتی ہے
میں ہوں بیگانۂ جہاں افضلؔ کیوں کرے کوئی انتظار مرا بد نما خود کو میں سمجھتا تھا آئنہ ہی تھا داغدار مرا
ہجر کے ماروں کی تقدیر بھی کیا ہوتی ہے دیکھ سکتے ہیں مگر بات نہیں ہو پاتی ان کناروں سے کبھی پوچھو جدائی کیا ہے عمر بھر جن کی ملاقات نہیں ہو پاتی
ہوتا تھا جنہیں دیکھ کے مسرور میں افضلؔ آنکھوں میں مری اب وہی منظر نہیں آتے حیران میں ہوتا ہوں یہی سوچ کے اکثر کیا بات ہے اب چھت پہ کبوتر نہیں آتے
اب بھی راتیں مری مہکتی ہیں ایک دن خواب میں وہ آتا تھا چلتے چلتے ہوئی کوئی آہٹ مڑ کے دیکھا تو میرا سایا تھا
کیا کبھی اس سے ملاقات ہوئی ہے تیری نور سے جس کے اجالا ہے تری آنکھوں میں آئنہ دیکھ کے حیران تجھے ہوتا ہے عکس کس کا ہے جو رہتا ہے تری آنکھوں میں
ہٹا کے گرد زمانہ نکھار دے مجھ کو جہاں سنوارنے والے سنوار دے مجھ کو ضرورتوں کے بھنور ہیں بڑا اندھیرا ہے ذرا سی روشنی دے کر ابھار دے مجھ کو
سنا رہا ہوں کسی اور کو کتھا اپنی کھڑا ہوا ہے کوئی اور آدمی مرے ساتھ وہ مجھ کو پہلے بھی تنہا کہاں سمجھتا تھا پھر اس نے میری اداسی بھی دیکھ لی مرے ساتھ
زخم دیکھے جسم دیکھا اور پہچانا اسے دھیرے دھیرے پھر مجھے میں یاد آنے لگ گیا حیرتوں کو دیکھتا تھا کچھ بھی کہہ پاتا نہ تھا آخر اک دن آئنہ آنسو بہانے لگ گیا