جو مزین ہوں ترے حسن کی تابانی سے
جو مزین ہوں ترے حسن کی تابانی سے ڈھونڈھتی رہتی ہیں ایسے ہی مناظر آنکھیں اس کا دل دیدۂ بینا کی طرح ہوتا ہے بند رکھتا ہے جو ہر وقت بہ ظاہر آنکھیں
جو مزین ہوں ترے حسن کی تابانی سے ڈھونڈھتی رہتی ہیں ایسے ہی مناظر آنکھیں اس کا دل دیدۂ بینا کی طرح ہوتا ہے بند رکھتا ہے جو ہر وقت بہ ظاہر آنکھیں
اس قدر جلوۂ جاناں کو ہیں بے تاب آنکھیں اپنے پردیسی کا جیسے کوئی دستہ دیکھے عشق جاناں میں فنا ہو گئی میری ہستی موت سے کہہ دو کہ آئے مرا مرنا دیکھے
در بدر بھٹکا کریں گے راستہ ڈھونڈیں گے لوگ تو نہیں ہوگا تو تیرا نقش پا ڈھونڈیں گے لوگ روشنی کے واسطے کوزہ گروں کے شہر میں ہم نہیں ہوں گے تو مٹی کا دیا ڈھونڈیں گے لوگ
دکھا نہ خواب حسیں اے نصیب رہنے دے میں اک غریب ہوں مجھ کو غریب رہنے دے مریض عشق ہوں مجھ کو دوا سے کیا مطلب نہ کر علاج مرا اے طبیب رہنے دے
شعر کی میں ردیف بن جاؤں تو اگر اس کا قافیہ ہو جا خوف دنیا کا ہے تو چھوڑ مجھے یا تو پھر میرا آئنہ ہو جا
دشت میں تپتے غباروں سے تیمم کر کے عشق کرتا ہے جو سجدے تو غزل ہوتی ہے یوں ہی لفظوں میں حرارت نہیں آتی افضلؔ جب قلم خون میں ڈوبے تو غزل ہوتی ہے
لب ہمارے خموش رہتے ہیں اور کرتی ہیں گفتگو آنکھیں پھیل جائے جہاں میں تاریکی بند کر لے کبھی جو تو آنکھیں
ہماری قوت پرواز کا ثانی نہیں کوئی مگر پرواز پر اپنی کہاں ہم ناز کرتے ہیں عقابی حوصلہ رکھتے ہیں ہم اونچی اڑانوں میں ہماری رہنمائی میں سبھی پرواز کرتے ہیں
ہمارے چاروں طرف ہے ہجوم کانٹوں کا یہاں پہ پہنچے ہیں پھولوں کی چاہ کرتے ہوئے لباس مل گیا افضلؔ وہیں طہارت کا ترا خیال جو آیا گناہ کرتے ہوئے
یہ کون آیا ہے گلشن میں تازگی لے کر چمن میں پھول بہاروں سے بات کرتے ہیں وہ کرنے لگتے ہیں تعریف تیری محفل کی جب آسماں کے نظاروں سے بات کرتے ہیں