جو مہکتا ہے بوئے اردو سے
جو مہکتا ہے بوئے اردو سے اس گلستاں کا عندلیب ہوں میں ہے مرے پاس درد کی دولت اے زمانہ کہاں غریب ہوں میں
جو مہکتا ہے بوئے اردو سے اس گلستاں کا عندلیب ہوں میں ہے مرے پاس درد کی دولت اے زمانہ کہاں غریب ہوں میں
دیار عشق میں محرومیوں کے ہیں چرچے دیار حسن میں مغرور سب نظارے ہیں انہیں سمجھنے کی کوشش تو کیجیے افضلؔ وہ دل فریب نگاہوں کے جو اشارے ہیں
جنہیں ضمیر کی دولت خدا نے بخشی ہے انہیں خرید نہ پائیں گے سلطنت والے ہر ایک شخص اٹھائے ہے ہاتھ میں پتھر کہاں قیام کریں آئنوں کے متوالے
تو ہے ظاہر پرست اے دنیا مہکے گیسو کا درد کیا جانے سب تو جھنکار کے ہیں متوالے کوئی گھنگھرو کا درد کیا جانے
میں زباں رکھتے ہوئے خاموش ہوں مجھ کو کیسی بے زبانی دے گیا میں ابھی ننھا سا پودا تھا مگر مجھ کو فکر باغبانی دے گیا
اس راز سے واقف نہیں افضلؔ یہ زمانہ اشکوں کے سمندر میں جزیرہ ہے غزل کا اس ٹوٹے ہوئے دل کی حقیقت میں بناؤں قبلہ ہے غزل کا یہی کعبہ ہے غزل کا
یہ کائنات منور ہے تیرے جلووں سے ترے ہی جلووں کی ہر سمت اک نمائش ہے کہاں وہ تاب نظر ہے کہ تجھ کو دیکھ سکوں تری نظر سے تجھے دیکھنے کی خواہش ہے
ہیں آندھیوں میں بھی روشن چراغ حق افضلؔ اندھیرے کیسے سمجھ پائیں روشنی کا مزاج نماز عشق ادا کرتے ہیں وہ مقتل میں حسین والے سمجھتے ہیں بندگی کا مزاج
چل رہے ہیں قطار میں سورج اور چراغوں کی رہنمائی ہے رونقیں اس کی کم نہیں ہوتیں تو نے محفل عجب سجائی ہے
غموں کا ایک طوفاں دل کے اندر شور کرتا ہے مگر ہم تو سمندر کی طرح خاموش رہتے ہیں صراحی اور پیمانے یہاں کافی نہیں ہوتے یہ وہ بستی ہے افضلؔ جس میں دریا نوش رہتے ہیں