جسے ہر شعر پر دیتے تھے تم داد
جسے ہر شعر پر دیتے تھے تم داد وہی رنگیں نوا خونیں نوا ہے اب ان رنگوں کے نیچے دھیرے دھیرے لہو کا ایک دریا بہہ رہا ہے
جسے ہر شعر پر دیتے تھے تم داد وہی رنگیں نوا خونیں نوا ہے اب ان رنگوں کے نیچے دھیرے دھیرے لہو کا ایک دریا بہہ رہا ہے
یہ فضا، یہ گھاٹیاں، یہ بدلیاں یہ بوندیاں کاش اس بھیگے ہوئے پربت سے لہراتی ہوئی دھیرے دھیرے ناچتی آئے صبوحی اور پھر گھل کے کھو جائے کہیں میری غزل گاتی ہوئی
وہ پانی بھرنے چلی اک جوان پنساری وہ گورے ٹخنوں پہ پازیب چھنچھناتی ہے غضب غضب کہ مرے دل کی سرد راکھ سے پھر کسی کی تپتی جوانی کی آنچ آتی ہے
برس کے چھٹ گئے بادل ہوائیں گاتی ہیں گرجتے نالوں میں چرواہیاں نہاتی ہیں وہ نیلی دھوئی ہوئی گھاٹیوں سے دو گونجیں کسی کو دکھ بھری آواز میں بلاتی ہیں
وہ دور جھیل کے پانی میں تیرتا ہے چاند پہاڑیوں کے اندھیروں پہ نور چھانے لگا وہ ایک کھوہ میں اک بد نصیب چرواہا بھگو کے آنسوؤں میں ایک گیت گانے لگا
رخسار ہیں یا عکس ہے برگ گل تر کا چاندی کا یہ جھومر ہے کہ تارا ہے سحر کا یہ آپ ہیں یا شعبدۂ خواب جوانی یہ رات حقیقت ہے کہ دھوکا ہے نظر کا
آنسوؤں میں بھگو کے آنکھوں کو دیکھتے ہو تو خاک دیکھو گے آئنے کو ذرا سا نم کر دو پیرہن چاک چاک دیکھو گے
خموش جھیل پہ کیوں ڈولنے لگا بجرا ہوائیں تند نہیں ہیں کنارہ دور نہیں بھنور کا ذکر نہ کر زندگی کا لطف نہ چھین مجھے ابھی کسی انجام کا شعور نہیں
ساون کی یہ رت اور یہ جھولوں کی قطاریں اڑتی ہوئی زلفوں پہ مچلتی ہیں پھواریں میں صبح سے ندی کے کنارے پہ کھڑا ہوں ملاح کہاں ہیں جو مجھے پار اتاریں
یہ بھی کیا چال ہے ہر گام پہ محشر کا گماں پائلیں بجتی ہیں لہنگے کی کماں تنتی ہے یوں چلو جیسے اترتی ہے کہستاں سے ہوا جیسے رنگوں کے تموج سے کرن بنتی ہے