آج پنگھٹ پہ یہ گاتا ہوا کون آ نکلا
آج پنگھٹ پہ یہ گاتا ہوا کون آ نکلا لڑکیاں گاگریں بھرتی ہوئی گھبرا سی گئیں اوڑھنی سر پہ جما کر وہ صبوحی اٹھی انکھڑیاں چار ہوئیں جھک گئیں شرما سی گئیں
آج پنگھٹ پہ یہ گاتا ہوا کون آ نکلا لڑکیاں گاگریں بھرتی ہوئی گھبرا سی گئیں اوڑھنی سر پہ جما کر وہ صبوحی اٹھی انکھڑیاں چار ہوئیں جھک گئیں شرما سی گئیں
عید کا دن ہے فضا میں گونجتے ہیں قہقہے جھولتی ہیں لڑکیاں جھولوں پہ گاتی ہیں ملہار میرا جھولا جس سے ہیں لپٹے ہوئے سرسوں کے پھول دیکھتا ہے ایک نکڑ کو لپک کر بار بار
گورے ہاتھوں میں یہ دھانی چوڑیوں کی آن بان کالی زلفوں پر گلابی اوڑھنی کی آب و تاب ہر قدم پر نقرئی خلخال کے نغموں کی لہر تیرے پیکر میں مجسم ہو گئی روح شباب
ریشۂ گل کو رگ سنگ بنانے والو بوئے گل سنگ سے ٹپکے گی شرارے بن کر تم کو معلوم تو ہوگا کہ اجالا دن کا سینۂ شب میں دھڑکتا ہے ستارے بن کر
پو پھٹے رینگتے جھرنے پہ یہ کون آیا ہے بال بکھرے ہوئے لپٹے ہوئے خواب آنکھوں سے لوٹ لیں تشنگئ زیست نے نیندیں ورنہ یوں پیاپے نہ برستی مئے ناب آنکھوں سے
رنگ جب اپنی حقیقت سے شناسا ہو جائے لالہ زاروں میں بھڑکتا ہے الاؤ بن کر رقص جب دائرۂ فن سے ابل پڑتا ہے دندناتا ہے سمندر کا بہاؤ بن کر
آنکھ کھل جاتی ہے جب رات کو سوتے سوتے کتنی سونی نظر آتی ہے گزر گاہ حیات ذہن و وجدان میں یوں فاصلے تن جاتے ہیں شام کی بات بھی لگتی ہے بہت دور کی بات
کبھی نہ پلٹے گی بیتی ہوئی گھڑی لیکن تصورات سے دل خوش ہیں نوع انساں کے وہ کس کے ہاتھ کے ہیں منتظر خدا جانے لرزتے رہتے ہیں پردے حریم جاناں کے
لڑکیاں چنتی ہیں گیہوں کی سنہری بالیاں کاٹتے ہیں گھاس مینڈھوں پر سے بانکے نوجواں کھوئی کھوئی ایک لڑکی بیریوں کی چھاؤں میں دیکھتی ہے گھاس پر لیٹی ہوئی جانے کہاں
گلی کے موڑ پہ بچوں کے ایک جمگھٹ میں کسی نے درد بھرے لے میں ماہیا گایا مجھے کسی سے محبت نہیں مگر اے دل یہ کیا ہوا کہ تو بے اختیار بھر آیا