گرتی ہوئی بوندیں ہیں کہ پارے کی لکیریں
گرتی ہوئی بوندیں ہیں کہ پارے کی لکیریں بادل ہے کہ بستی پہ گجردم کا دھواں ہے مغموم پپیہا ہے کہ بھٹکا ہوا شاعر جو پوچھتا پھرتا ہے کہاں ہے تو کہاں ہے
گرتی ہوئی بوندیں ہیں کہ پارے کی لکیریں بادل ہے کہ بستی پہ گجردم کا دھواں ہے مغموم پپیہا ہے کہ بھٹکا ہوا شاعر جو پوچھتا پھرتا ہے کہاں ہے تو کہاں ہے
کئی برس سے ہے ویران مرغزار شباب اب التفات کے بادل برس رہے ہیں کیوں؟ یہ بوندیاں، یہ پھواریں، یہ رس بھرے جھونکے توقعات کی نعشوں کو ڈس رہے ہیں کیوں؟
مری شکست پہ اک پرتو جمال تو ہے میں کیوں نہ عظمت افتادگی پہ اتراؤں تجھی سے ہے مری آسودہ خاطری کا بھرم ترے غموں کا خزانہ چھنے تو لٹ جاؤں
گائیں ڈکراتی ہوئی پگڈنڈیوں پر آ گئیں مرلیاں ہاتھوں میں لے کر مست چرواہے بڑھے بیریوں کے دھندلے سایوں میں کھڑا ہوں منتظر ایک لڑکی کو گزرنا ہے یہاں سے دن چڑھے
داور حشر مجھے تیری قسم عمر بھر میں نے عبادت کی ہے تو مرا نامۂ اعمال تو دیکھ میں نے انساں سے محبت کی ہے
اداس چاند نے بدلی کی آڑ میں ہو کر کنارے ملگجے بادل کے کر دیئے روشن شب فراق میں جیسے تصور رخ دوست دل حزیں کے اندھیرے میں روشنی کی کرن
بات کہنے کا جو ڈھب ہو تو ہزاروں باتیں ایک ہی بات میں کہہ جاتے ہیں کہنے والے لیکن ان کے لیے ہر لفظ کا مفہوم ہے ایک کتنے بے درد ہیں اس شہر کے رہنے والے
کھڑکھڑاتی ڈول وہ دھم سے کنویں میں گر گئی دم بخود پنہاریاں کنگن گھماتی رہ گئیں وہ کنویں میں ایک چرواہا اترنے کو بڑھا وہ صبوحی کی نگاہیں مسکراتی رہ گئیں
تمتماتے ہیں سلگتے ہوئے رخسار ترے آنکھ بھر کر کوئی دیکھے گا تو جل جائے گا اتنا سیال ہے یہ پل کہ گماں ہوتا ہے میں ترے جسم کو چھو لوں تو پگھل جائے گا
گلوں میں رنگ تو تھا رنگ میں جلن تو نہ تھی مہک میں کیف تو تھا کیف میں جنوں تو نہ تھا بدل دیا ترے غم نے بہار کا کردار کہ اب سے قبل چمن کا مزاج یوں تو نہ تھا