نہ منہ چھپا کے جئے ہم نہ سر جھکا کے جئے
نہ منہ چھپا کے جئے ہم نہ سر جھکا کے جئے ستم گروں کی نظر سے نظر ملا کے جئے اب ایک رات اگر کم جئے تو کم ہی سہی یہی بہت ہے کہ ہم مشعلیں جلا کے جئے
نہ منہ چھپا کے جئے ہم نہ سر جھکا کے جئے ستم گروں کی نظر سے نظر ملا کے جئے اب ایک رات اگر کم جئے تو کم ہی سہی یہی بہت ہے کہ ہم مشعلیں جلا کے جئے
تپتے دل پر یوں گرتی ہے تیری نظر سے پیار کی شبنم جلتے ہوئے جنگل پر جیسے برکھا برسے رک رک تھم تھم
خود کو بے کل کیا اوروں کو ستائے رکھا عرصۂ عمر میں اک حشر اٹھائے رکھا جانے کس طور سے تنہائی نے چپکے چپکے شہر کا شہر مرے دل میں بسائے رکھا
بدن اور ذہن مل بیٹھے ہیں پھر سے یہ دل پھر سے اکیلا ہو رہا ہے شناسائی زیادہ ہو رہی ہے اور اندر کوئی تنہا ہو رہا ہے
ایک تعلق جان کے ملتے ہیں ورنہ اپنی خاطر جینا سہل تو ہوتا ہے رفتہ رفتہ ہو جائے گی آسانی ہر میدان میں پہلا پہل تو ہوتا ہے
اس کے آنے کی دعا ہوتی ہے دن بھر لیکن در پہ دستک مرے دیتا ہے اثر شام کے بعد سارا دن گھر مرے رہتی ہیں کڑی دوپہریں ہاں مری شام بھی آتی ہے مگر شام کے بعد
تجربہ ہے ہمیں محبت کا دل حسینوں سے پیار کرتا ہے آم تیری یہ خوش نصیبی ہے ورنہ لنگڑوں پہ کون مرتا ہے
صرف کہتی رہو گی اے بیگم یا عمل کر کے بھی دکھاؤ گی جب سے آئی ہو روز کہتی ہو چوتھی منزل سے پھاند جاؤ گی
اک شب ہمارے بزم میں جوتے جو کھو گئے ہم نے کہا بتائیے گھر کیسے جائیں گے کہنے لگے کہ شعر سناتے رہو یونہی گنتے نہیں بنیں گے ابھی اتنے آئیں گے
نہ لکھو وصل کی راحت صلیب لکھ ڈالو کوئی تو بات عجیب و غریب لکھ ڈالو دبائے بیٹھی ہو جو اپنے نرم ہاتھوں میں اسی قلم سے ہمارا نصیب لکھ ڈالو