حکمت اہل مدرسہ کا غرور
حکمت اہل مدرسہ کا غرور میری وحشت سے دب کے ہار گیا تیرا گھبرا کے مسکرا دینا زندگی کی نقاب اتار گیا
حکمت اہل مدرسہ کا غرور میری وحشت سے دب کے ہار گیا تیرا گھبرا کے مسکرا دینا زندگی کی نقاب اتار گیا
رنگ حرف صدا کی دنیا میں زندگی قتل ہو گئی ہے کہیں مر گیا لفظ اڑ گیا مفہوم اور آواز کھو گئی ہے کہیں
میں نے اس دشت کی وسعت میں شبستاں پائے اس کے ٹیلوں پہ مجھے قصر نظر آئے ہیں ان ببولوں میں کسی ساز کے پردے لرزے ان کھجوروں پہ مرے راز ابھر آئے ہیں
وہ سبز کھیت کے اس پار ایک چٹان کے پاس کڑکتی دھوپ میں بیٹھی ہے ایک چرواہی پرے چٹان سے پگڈنڈیوں کے جالوں میں بھٹکتا پھرتا ہے وہ ایک نوجواں راہی
وہ تار کے اک کھمبے پہ بیٹھی ہے ابابیل اڑنے کے لئے دیر سے پر تول رہی ہے جس طرح مرے عشق کی ٹوٹی ہوئی کشتی امید کے ساحل پہ کھڑی ڈول رہی ہے
تری زلفیں ہیں کہ ساون کی گھٹا چھائی ہے تیرے عارض ہیں کہ پھولوں کو ہنسی آئی ہے یہ ترا جسم ہے یا صبح کی شہزادی ہے ظلمت شب سے الجھتی ہوئی انگڑائی ہے
جب چٹانوں سے لپٹتا ہے سمندر کا شباب دور تک موج کے رونے کی صدا آتی ہے یک بیک پھر یہی ٹوٹی ہوئی بکھری ہوئی موج اک نئی موج میں ڈھلنے کو پلٹ جاتی ہے
کنج زنداں میں پڑا سوچتا ہوں کتنا دلچسپ نظارہ ہوگا یہ سلاخوں میں چمکتا ہوا چاند تیرے آنگن میں بھی نکلا ہوگا
باجرے کی فصل سے چڑیاں اڑانے کے لئے ایک دوشیزہ کھڑی ہے کنکروں کے ڈھیر پر وہ جھکی وہ ایک پتھر سنسنایا، وہ گرا کٹ گئے ہیں اس کے جھٹکے سے مرے قلب و جگر
ممکن ہے فضاؤں سے خلاؤں کے جہاں تک جو کچھ بھی ہو آدم کا نشان کف پا ہو ممکن ہے کہ جنت کی بلندی سے اتر کر انسان کی عظمت میں اضافہ ہی ہوا ہو