ہمیشہ وقت سحر جب قریب ہوتا ہے
ہمیشہ وقت سحر جب قریب ہوتا ہے ہوائیں چلتی ہیں سارا جہان سوتا ہے تجھے خبر نہیں او غم سے بے خبر! اس وقت ترے پڑوس میں اک غم نصیب روتا ہے
ہمیشہ وقت سحر جب قریب ہوتا ہے ہوائیں چلتی ہیں سارا جہان سوتا ہے تجھے خبر نہیں او غم سے بے خبر! اس وقت ترے پڑوس میں اک غم نصیب روتا ہے
جو پوچھتا ہے کوئی سرخ کیوں ہیں آج آنکھیں تو آنکھیں مل کے میں کہتا ہوں رات سو نہ سکا ہزار چاہوں مگر یہ نہ کہہ سکوں گا کبھی کہ رات رونے کی خواہش تھی اور رو نہ سکا
ہائے کیا قہر تھی وہ پہلی نظر جس میں محسوس یہ ہوا اخترؔ مجھ پہ گویا کسی نے پھینک دی ہیں ایک مٹھی میں بجلیاں بھر کر
آتش عشق بھڑک اٹھی ہے پیمانے میں کون سی آگ لگی دل میں یہ انجانے میں یہ تری شیریں لبی شعلۂ آتش بن کر اب سماعت سے چلی دل کے نہاں خانے میں
اے ہوا اوڑھ لی ہم نے تیری ردا یہ سہیل و کواکب زمیں آسماں ابتدا ابتدا ہیں یہ سب ابتدا
اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے مزا کہنے کا جب ہے اک کہے اور دوسرا سمجھے کلام میر سمجھے اور زبان میرزا سمجھے مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے
کب تک بوجھل پلکوں سے اشکوں کے ستارے ٹوٹیں گے کب تک آہیں سسک سسک کر ہونٹوں پر دم توڑیں گی کب تک میں یاس و امید کے دوراہے پر ڈولوں گا کب تک تیری یادیں میرے ٹوٹے سپنے جوڑیں گی
ذکر مریخ و مشتری کے ساتھ اپنی دھرتی کی بات بھی تو کرو موت کا احترام برحق ہے احترام حیات بھی تو کرو
بوڑھے ماں باپ بلکتے ہوئے گھر کو پلٹے چونک اٹھے ہیں وہ شہنائی بجانے والے اف بچھڑتی ہوئی دوشیزہ کے نالوں کا اثر ڈولتے جاتے ہیں ڈولی کے اٹھانے والے
یوں مرے ذہن میں لرزاں ہے ترا عکس جمیل دل مایوس میں یوں گاہے ابھرتی ہے آس ٹمٹماتا ہے وہ نوخیز ستارا جیسے دور مسجد کے اس ابھرے ہوئے مینار کے پاس