ایک صبر آزما جدائی ہے
ایک صبر آزما جدائی ہے ملنے جلنے کی بند ہیں راہیں میں نے اس ماہ رو کی گردن میں ڈال دی ہیں خیال کی باہیں
ایک صبر آزما جدائی ہے ملنے جلنے کی بند ہیں راہیں میں نے اس ماہ رو کی گردن میں ڈال دی ہیں خیال کی باہیں
تمام عمر میں آنسو بہاؤں گا اخترؔ تمام عمر یہ صدمہ رہے گا میرے ساتھ کہ اپنے آپ کو میں نے فروخت کر ڈالا کسی کو پانے کی ناکام آرزو کے ہات
یہ بوسیدہ پھٹی گدڑی یہ سوراخوں بھری کملی جسے سب آسماں کے نام سے موسوم کرتے ہیں تری رحمت کے قرباں! اس کو نیچے پھینک دے یارب زمیں والے بہت راتوں کی سردی میں ٹھٹھرتے ہیں
الٰہی اس کو محبت سے کچھ تعلق ہے جو اس طرح سے سناتا ہے نغمۂ رنگیں جہاں رباب کی آواز کان میں آئی کسی کی یاد نے سینے میں بجلیاں بھر دیں
ہمیشہ جاگتے ہی جاگتے سحر کر دی کبھی ہنسا کبھی آہیں بھریں کبھی رویا بنا کے چاند کو اپنا گواہ کہتا ہوں میں آج تک شب مہتاب میں نہیں سویا
دل حسرت زدہ میں ایک شعلہ سا بھڑکتا ہے محبت آہیں بھرتی ہے تمنائیں ترستی ہیں کوئی دیکھے بھری برسات کی راتوں میں حال اپنا گھٹا چھائی ہوئی ہوتی ہے اور آنکھیں برستی ہیں
جن کو ہے عیش دل میسر، وہ ہائے کیا کھل کھلا کے ہنستے ہیں اور ہم بے نصیب اے اخترؔ مسکرانے کو بھی ترستے ہیں
حسن کی داستاں بنا ڈالا عشق کا ترجماں بنا ڈالا بھر کے اعضا میں رقص کا جادو تو نے ان کو زباں بنا ڈالا
زخم کھانے کے دن گئے لیکن یاد کے زخم تو مہکتے ہیں آنکھیں اب بھی برستی ہیں اخترؔ دل کے داغ آج بھی دہکتے ہیں
خوں بھرے جام انڈیلتا ہوں میں ٹیس اور درد جھیلتا ہوں میں تم سمجھتے ہو شعر کہتا ہوں اپنے زخموں سے کھیلتا ہوں میں