اجڑی دنیا کو بسایا ہے ذرا دیکھو تو
اجڑی دنیا کو بسایا ہے ذرا دیکھو تو غم کی محفل کو سجایا ہے ذرا دیکھو تو چشم گریاں، دل پر خوں، جگر زخم آلود میں نے اک باغ لگایا ہے ذرا دیکھو تو
اجڑی دنیا کو بسایا ہے ذرا دیکھو تو غم کی محفل کو سجایا ہے ذرا دیکھو تو چشم گریاں، دل پر خوں، جگر زخم آلود میں نے اک باغ لگایا ہے ذرا دیکھو تو
کوئی جنگل میں گا رہا ہے گیت دھیمی آواز دکھ بھرا لہجہ دل کو گویا یہ مل گیا ہے حکم اشک خوں بن کے آنکھ سے بہہ جا
آہ! مرگ آرزو کا ماجرا اب کیا کہوں اک مسلسل یاس کا ہے سامنا اب کیا کہوں دم بہ دم بجھتی ہی جاتی ہے نشاط دل کی جوت رچ گیا ہے روح میں اک درد سا اب کیا کہوں
جا رہا تھا میں سر جھکائے ہوئے گزری اک ماہ رو برابر سے بھر کے اپنی نظر میں کچھ کرنیں اس نے سینے میں ڈال دیں میرے
رات کو بیٹھ کر لب دریا دیکھنا آسماں کے تاروں کا لوح دل پر ابھار دیتا ہے نقش گزری ہوئی بہاروں کا
ادھر دماغ ہیں ساکت دلوں کو سکتہ ہے ادھر سکوت بھی فریاد سے چھلکتا ہے وہاں تو حلق میں پھنستا نہیں نوالہ بھی یہاں یہ حال کہ سینے میں سانس اٹکتا ہے
وہ دل نہیں رہا وہ طبیعت نہیں رہی وہ شب کو خون رونے کی عادت نہیں رہی محسوس کر رہا ہوں میں جینے کی تلخیاں شاید مجھے کسی سے محبت نہیں رہی
گوشۂ باغ کی ملاقاتیں اور راز و نیاز کی باتیں اے دل! ارمان رہ نہ جائے کوئی پھر نہ ہوں گی نصیب یہ راتیں
آب دریا میں ہے جس طرح روانی پنہاں جیسے الفاظ میں ہوتے ہیں معانی پنہاں نغمہ گر! یونہی ترے درد بھرے نغموں میں ہے مرے درد محبت کی کہانی پنہاں
عمر بھر جینے کی تہمت بھی اٹھے گی یارب اور پھر حشر کی زحمت بھی اٹھے گی یارب لیکن اپنا یہ جنوں ہائے یہ جنس نایاب کبھی اس جنس کی قیمت بھی اٹھے گی یارب