ہوا تھی ٹھنڈی ٹھنڈی چاندنی تھی اور دریا تھا
ہوا تھی ٹھنڈی ٹھنڈی چاندنی تھی اور دریا تھا کہیں نزدیک ہی جنگل میں کوئی گیت گاتا تھا فضا میں رس بھرے نغموں کی ہلکی ہلکی بارش تھی مرے دامن میں چھم چھم آنسوؤں کا مینہ برستا تھا
ہوا تھی ٹھنڈی ٹھنڈی چاندنی تھی اور دریا تھا کہیں نزدیک ہی جنگل میں کوئی گیت گاتا تھا فضا میں رس بھرے نغموں کی ہلکی ہلکی بارش تھی مرے دامن میں چھم چھم آنسوؤں کا مینہ برستا تھا
اب کہاں ہوں کہاں نہیں ہوں میں جس جگہ ہوں وہاں نہیں ہوں میں کون آواز دے رہا ہے مجھے؟ کوئی کہہ دو یہاں نہیں ہوں میں
غم دل کا علاج دنیا میں شاید اس کے سوا کچھ اور نہ ہو کہ زمانے کے سارے تیر ستم اپنے دل میں پرو کے بیٹھ رہو
دل کو برباد کئے جاتی ہے غم بدستور دیے جاتی ہے مر چکیں ساری امیدیں اخترؔ آرزو ہے کہ جیے جاتی ہے
اس روپہلی شراب نوریں سے کاش میں جام شعر بھر سکتا! اے شب مہ کے منتشر جلوو! کاش میں تم کو نظم کر سکتا
باتیں کرنے میں پھول جھڑتے ہیں برق گرتی ہے مسکرانے میں نظریں! جیسے فراخ دل ساقی خم لنڈھائے شراب خانے میں
نیند آتی ہے اس طرح شب کو جیسے پینے میں نشہ چڑھتا ہے صبح اس طرح سو کے اٹھتے ہیں جیسے سیلاب آگے بڑھتا ہے
مطربہ جب صدائے ساز کے ساتھ اپنی آواز کو اٹھاتی ہے تھام لیتا ہوں دل کو میں لیکن منہ سے توبہ نکل ہی جاتی ہے
ہر طرف ایک بے حجابی ہے بے نقابی ہی بے نقابی ہے تم بھی آ جاؤ چاندنی بن کر آج کی رات ماہتابی ہے
کر دیا حافظے میں حشر بپا اور ماضی میں زندگی بھر دی انگلیوں کو فضا میں لہرا کر تو نے اک داستاں رقم کر دی