ان میں رہتی تھی اک ہنسی بن کر
ان میں رہتی تھی اک ہنسی بن کر وہ مسرت جو اب نصیب نہیں یہی آنکھیں جو آج روتی ہیں کبھی اخترؔ ہنسا بھی کرتی تھیں
ان میں رہتی تھی اک ہنسی بن کر وہ مسرت جو اب نصیب نہیں یہی آنکھیں جو آج روتی ہیں کبھی اخترؔ ہنسا بھی کرتی تھیں
موت کی سی پر سکوں ویرانیاں عرش سے تا فرش ہیں چھائی ہوئی چاندنی پھیلی ہوئی ہے ہر طرف رات کی میت ہے کفنائی ہوئی
پڑھا ہے میں نے فسانوں میں جس طرح اخترؔ مرا شگوفۂ امید کیوں نہیں کھلتا؟ جو عشق پاتے ہیں کثرت سے ہم کتابوں میں وہ واقعات کی دنیا میں کیوں نہیں ملتا
کس قیامت کے لمحے تھے اخترؔ ہائے کیا بے کسی کی گھڑیاں تھیں تھے فلک پر ستارے بکھرے ہوئے گود میں آنسوؤں کی لڑیاں تھیں
سچ تو یہ ہے جہاں میں میرے بعد نغمے دن رات یونہی برسیں گے اور کیا کیا حسین زمزمے ہائے میرے ذوق نوا کو ترسیں گے
فغان غم سرود انجمیں معلوم ہوتی ہے تپش دل کی بہار یاسمیں معلوم ہوتی ہے مرا کافر مذاق حسن اب تم پوچھتے کیا ہو مجھے اپنی تباہی بھی حسیں معلوم ہوتی ہے
یہ ملاقات لوٹے لیتی ہے عشق کی گھات لوٹے لیتی ہے کر لو اخترؔ گواہ تاروں کو آج کی رات لوٹے لیتی ہے
کسی خیال میں مدہوش جا رہا تھا میں اندھیری رات تھی تاریکیوں کی بارش تھی نکل گئی کوئی دوشیزہ دل کو چھوتی ہوئی یہ میرے ساز جوانی کی پہلی لرزش تھی
تیری نازک اور لانبی انگلیاں ساز کے تاروں کو جب کرتی ہیں مس جھومنے لگتی ہے زہرہ عرش پر دل پکار اٹھتا ہے بس للہ! بس
محبت! اے کہ تو دیوی ہے غم کی روئے جا اگر سفینہ ہو نازک تو یونہی کھیتے ہیں ان آنسوؤں ہی سے زینت ہے تیرے عارض کی یہ اشک خوں ترے رخ پر بہار دیتے ہیں