اب کہاں تک بت کدہ میں صرف ایماں کیجئے
اب کہاں تک بت کدہ میں صرف ایماں کیجئے تا کجا عشق بتاں میں سست پیماں کیجئے ہے یہی بہتر علی گڑھ جا کے سید سے کہوں مجھ سے چندہ لیجئے مجھ کو مسلماں کیجئے
اب کہاں تک بت کدہ میں صرف ایماں کیجئے تا کجا عشق بتاں میں سست پیماں کیجئے ہے یہی بہتر علی گڑھ جا کے سید سے کہوں مجھ سے چندہ لیجئے مجھ کو مسلماں کیجئے
قدیم وضع پہ قائم رہوں اگر اکبر تو صاف کہتے ہیں سید ہی رنگ ہے میلا جدید طرز اگر اختیار کرتا ہوں خود اپنی قوم مچاتی ہے شور و واویلا
دیکھتا ہے اک عمر سے بندہ بس یہی باتیں اور یہی فنڈہ ہوتا ہے کچھ کام نہ دھندہ لاؤ چندہ لاؤ چندہ
چاندنی، تارے، ابر کے ٹکڑے ہائے کس قہر کی حسیں ہے رات لیجئے وہ پھوار پڑنے لگی آج کیوں ہوش میں نہیں ہے رات
پانی لے سکتے ہیں دریا سے مگر کوزے میں ہم بہتے دریا کی روانی بند کر سکتے نہیں شعر یوں کہنے کو کہہ لیں لیکن اخترؔ سچ یہ ہے دل کے محسوسات کو لفظوں میں بھر سکتے نہیں
فضا ہے نور کی بارش سے سیم گوں اس وقت جہان مست پہ طاری ہے اک سکوں اس وقت نہ چھیڑ درد جدائی کی داستاں اے دل مجھے خبر نہیں میں کس کے پاس ہوں اس وقت
پھوار، ابر، پرندوں کے گیت، مست ہوا بھرے کٹوروں کی صورت چھلک رہی ہے فضا بہار کان میں کچھ کہہ رہی ہے مجھ سے مگر وہ بے خودی ہے کہ میں کچھ سمجھ نہیں سکتا
دل تو روئے مگر میں گائے جاؤں روح تڑپے میں مسکرائے جاؤں شعر کہتا رہوں یونہی اخترؔ بات بگڑی ہوئی بنائے جاؤں
جی کو ناحق نڈھال کرتے ہو روح کو پائمال کرتے ہو آدمی اور گناہ سے پرہیز! تم بھی اخترؔ کمال کرتے ہو
ہے غم روزگار کا موضوع اک چمن جس میں گل نہیں کھلتے چاہتا ہوں کہ کچھ لکھوں اس پر لیکن الفاظ ہی نہیں ملتے