میں تو بھولا نہیں تم بھول گئی ہو مجھ کو
میں تو بھولا نہیں تم بھول گئی ہو مجھ کو خیر گر تم بھی نہیں ہو مرے غم خواروں میں تم نہ آؤگی تو کیا اب نہیں آئے گی بہار پھول کیا اب نہ کھلیں گے مرے گلزاروں میں
میں تو بھولا نہیں تم بھول گئی ہو مجھ کو خیر گر تم بھی نہیں ہو مرے غم خواروں میں تم نہ آؤگی تو کیا اب نہیں آئے گی بہار پھول کیا اب نہ کھلیں گے مرے گلزاروں میں
حسن تیرا کبھی گل اور کبھی ماہتاب ہوا کبھی آئینہ کبھی مہر جہاں تاب ہوا دل بے تاب مرا ریگ رواں کی صورت تیرے دیدار کی شبنم سے نہ سیراب ہوا
کہیں دریا کہیں وادی کہیں کہسار بنی کہیں شعلہ کہیں شبنم کہیں گل زار بنی خاک اک شکل سے سو شکل میں تبدیل ہوئی کہیں الماس کہیں گوہر شہوار بنی
جذبۂ شوق کی تکمیل نہیں ہو سکتی زندگی موت ہے احساس مسرت کے بغیر فقط اعصاب کی تسکین ہے توہین حیات صرف حیوان ہے انسان محبت کے بغیر
شمع کی طرح پگھلتے ہوئے دل دیکھے ہیں اشک بن بن کے نکلتے ہوئے دل دیکھے ہیں تو نے دیکھے ہی نہیں گرمئ رخسار حیات میں نے اس آگ میں جلتے ہوئے دل دیکھے ہیں
اک کرن ٹوٹ کے سو رنگ بکھر جاتے ہیں بکھرے جلوے بصد انداز سنور جاتے ہیں جاودانی ہے یہ دنیا کا تماشا جس میں نقش مٹتے ہیں تو مٹتے ہی ابھر آتے ہیں
یہ حکومت کے پجاری ہیں یہ دولت کے غلام جو جہنم کی مصیبت سے ڈراتے ہیں مجھے خود تو دنیا میں بنا لیتے ہیں جنت اپنی خواب کھوئی ہوئی جنت کے دکھاتے ہیں مجھے
یک بیک کیوں چمک اٹھی ہیں نگاہیں تیری اک کرنؔ پھوٹ رہی ہے تری پیشانی سے اور بھی تیز ہوئی جاتی ہے رخسار کی آگ جذبۂ شوق و محبت کی فراوانی سے
ان کو ملتا ہی نہیں ہے در مقصود کہیں جو صدف ہے وہی خالی نظر آتا ہے انہیں حلقۂ زلف ہو یا سرمۂ چشم خوباں حلقۂ دام خیالی نظر آتا ہے انہیں
ابھی پوشیدہ ہیں نظروں سے خزانے کتنے گوش انساں سے ہیں محروم ترانے کتنے ختم ہو سکتا نہیں سلسلۂ عمر دراز بطن تخلیق میں پنہاں ہیں زمانے کتنے