گرانی کا اثر
ہوئی جو دال گراں اور سبزیاں مہنگی کچن میں جا کے بھلا کیا کچن نواز کرے معاملات محبت کا اب یہ عالم ہے میں پیار پیار کروں اور وہ پیاز پیاز کرے
ہوئی جو دال گراں اور سبزیاں مہنگی کچن میں جا کے بھلا کیا کچن نواز کرے معاملات محبت کا اب یہ عالم ہے میں پیار پیار کروں اور وہ پیاز پیاز کرے
عجب سیکٹر زدہ کچھ لوگ اس بستی میں رہتے ہیں کہ جیسے گول کیپر اپنی اپنی ''ڈی'' میں رہتے ہیں چلے گا کس طرح اب عشق لیلیٰ اور مجنوں میں وہ سیکٹر ''ای'' میں رہتی ہے یہ سیکٹر ''جی'' میں رہتے ہیں
دیکھا جو زلف یار میں کاغذ کا ایک پھول میں کوٹ میں گلاب لگا کر چلا گیا پوڈر لگا کے چہرے پہ آئے وہ میرے گھر میں ان کے گھر خضاب لگا کر چلا گیا
جناب شیخ اپنے وعظ میں روزانہ برسوں سے سنائے جا رہے ہیں ایک ہی افسانہ برسوں سے ڈش انٹینا کے رستے روز آتی ہیں مرے گھر میں وہ حوریں جن کے چکر میں ہیں یہ مولانا برسوں سے
منے پر ہے اتنا بوجھ کتابوں کا بے چارے کو چلنے میں دشواری ہے اس کا بستہ دیکھ کے ایسے لگتا ہے پی۔ایچ۔ڈی سے آگے کی تیاری ہے
ہم تو اپنے دل پہ سارے سانحے سہہ جائیں گے ہاں مگر آنسو گرے تو داستاں کہہ جائیں گے وہ چلا جائے گا اک دن مجھ کو تنہا چھوڑ کر درمیاں میں فرقتوں کے فاصلے رہ جائیں گے
کسی کی بے وفائی پر وہ اکثر یاد آتے ہیں جو دیکھے تھے مری آنکھوں نے منظر یاد آتے ہیں خلش اے سوزؔ دل کی اب تلک میرے نہیں جاتی جو ہاتھوں میں تھے یاروں کے وہ پتھر یاد آتے ہیں
کسی کی پھر مرے دل پر حکومت ہوتی جاتی ہے الٰہی کیسی مجبوری کی صورت ہوتی جاتی ہے مزا دینے لگی اے سوزؔ اب بے تابئ دل بھی طبیعت محرم راز محبت ہوتی جاتی ہے
وجہ بے رنگیٔ گل زار کہوں تو کیا ہو کون ہے کتنا گنہ گار کہوں تو کیا ہو تم نے جو بات سر بزم نہ سننا چاہی میں وہی بات سر دار کہوں تو کیا ہو
جہاں جہاں تری نظروں کی اوس ٹپکی ہے وہاں وہاں سے ابھی تک غبار اٹھتا ہے جہاں جہاں ترے جلووں کے پھول بکھرے تھے وہاں وہاں دل وحشی پکار اٹھتا ہے