کبھی پہلو میں سمندر کے تڑپ اٹھتی ہیں
کبھی پہلو میں سمندر کے تڑپ اٹھتی ہیں اور کبھی ریت کے سینے سے لپٹ جاتی ہیں ان کو آتا نہیں آغوش محبت میں قرار موجیں منہ چوم کے ساحل کا پلٹ جاتی ہیں
کبھی پہلو میں سمندر کے تڑپ اٹھتی ہیں اور کبھی ریت کے سینے سے لپٹ جاتی ہیں ان کو آتا نہیں آغوش محبت میں قرار موجیں منہ چوم کے ساحل کا پلٹ جاتی ہیں
تو نے خود تلخ بنا رکھی ہے دنیا اپنی زندگی کتنی حسیں ہے تجھے معلوم نہیں ہے جو گہری سی شکن وقت کی پیشانی پر تیری ہی چیں بہ جبیں ہے تجھے معلوم نہیں
ابھی جواں ہے غم زندگی کا ہر لمحہ دھڑک رہا ہے دل بے قرار کی صورت حسین و شوخ ہے مستقبل بشر کا خیال کسی تبسم بے اختیار کی صورت
ماں کی آغوش میں ہنستا ہوا اک طفل جمیل جس طرح ذہن ازل میں ہو ابد کی تخیئل دیکھ لیں وہ جو سمجھتے ہیں کہ فانی ہے حیات زندگانی کے طرب ناک تسلسل کی دلیل
آدمی لاکھ ہو مایوس مگر مثل نسیم رقص کرتا ہے تمناؤں کے گلزاروں میں راستے وادیٔ و صحرا میں بنا لیتے ہیں چشمے رک کر نہیں رہ جاتے ہیں کہساروں میں
تو نہیں ہے نہ سہی تیری محبت کا خیال ڈھونڈھ لیتا ہے تجھے حسن کی نظاروں میں مسکراتا ہے دم صبح افق سے کوئی رقص کرتا ہے کوئی رات کو سیاروں میں
اپنے اڑتے ہوئے آنچل کو نہ رہ رہ کے سنبھال حسن کے پرچم زر تار کو لہرانے دے گر گیا پھول مہکتے ہوئے جوڑے سے تو کیا زلف کو تا بہ کمر آ کے مچل جانے دے
میری دنیا میں محبت نہیں کہتے ہیں اسے یوں تو ہر سنگ کے سینے میں شرر ملتا ہے سیکڑوں اشک جب آنکھوں سے برس جاتے ہیں تب کہیں ایک محبت کا گہر ملتا ہے
ہر ایک خوشی درد کے دامن میں پلی ہے نسبت ہے ہر اک نغمے کو بسمل کے گلو سے پیراہن گل، دست صبا ,پنجۂ گلچیں رنگین ہے ہر چیز شہیدوں کے لہو سے
کوئی ہر گام پہ سو دام بچھا جاتا ہے راستے میں کوئی دیوار اٹھا جاتا ہے موت کی وادئ ظلمت میں علم کھولے ہوئے کارواں زیست کا بڑھتا ہی چلا جاتا ہے