عشق اک جنس گراں مایہ ہے اک دولت ہے
عشق اک جنس گراں مایہ ہے اک دولت ہے یہ مگر عمر کا حاصل تو نہیں ہے اے دوست منزلیں اور بھی ہیں اس سے حسیں اس سے جمیل وصل کچھ آخری منزل تو نہیں ہے اے دوست
عشق اک جنس گراں مایہ ہے اک دولت ہے یہ مگر عمر کا حاصل تو نہیں ہے اے دوست منزلیں اور بھی ہیں اس سے حسیں اس سے جمیل وصل کچھ آخری منزل تو نہیں ہے اے دوست
تبسم لب ساقی چمن کھلا ہی گیا نشاط فصل بہاراں دلوں پہ چھا ہی گیا کہو حکایت گیسو فسانۂ قد یار شکست دار و رسن کا زمانہ آ ہی گیا
سالہا سال فضاؤں میں شرربار رہی ایک پر سوز ہیولیٰ میں گرفتار رہی خاک ہر چند کہ تھی پست و حقیر و نادار اپنی فطرت سے مگر بر سر پیکار رہی
عطا ہوئی ہے مرے دل کی سلطنت تجھ کو حریم جاں میں اتر شمع دلبری لے کر گزر وفا کے شبستان رنگ و نکہت میں مزاج آدمی و شیوۂ پری لے کر
حسن ہی حسن ہے فطرت کے صنم خانے میں نور ہی نور ہے اس خاک کے کاشانے میں رات آتی ہے ستاروں کی ردا اوڑھے ہوئے صبح مے پیتی ہے خورشید کے پیمانے میں
آ تیرے ہونٹ چوم لوں اے مژدۂ نجات صدیوں کے بعد ختم پہ آئی ستم کی رات ہر شاخ پر کھلے ہوئے رنگ شفق کے پھول ہر نخل کی کمر میں نسیم سحر کا ہات
دیکھو تو تیرہ و تاریک فضا کا عالم کس قدر درہم و برہم ہے ستاروں کا نظام تو چمکتا ہے افق پر ابھی مانند ہلال آسماں وقت کا ہے منتظر ماہ تمام
گرچہ ہے مشت غبار آدم و حوا کا وجود ان کی رفعت پہ برستے ہیں ستاروں کے سجود لالہ و گل تو فقط نقش قدم ہیں اس کے اصل میں خاک کی معراج ہے انساں کی نمود
آزمائش ہے تری جرات رندانہ کی آب ہے موج مے ناب میں تلواروں کی چشم ساقی میں ہے اب ہوش و خرد کا پیغام آج پرسش نہیں بہکے ہوئے میخاروں کی
ظلم اور جہل پر اصرار کرو گے کب تک عقل اور فہم سے پیکار کرو گے کب تک کب تلک عظمت افلاک کے گن گاؤ گے عظمت خاک سے انکار کرو گے کب تک