نسیم صبح تصور یہ کس طرف سے چلی
نسیم صبح تصور یہ کس طرف سے چلی کہ میرے دل میں چمن درکنار آتی ہے کہیں ملے تو مرے گل بدن سے کہہ دینا ترے خیال سے بوئے بہار آتی ہے
نسیم صبح تصور یہ کس طرف سے چلی کہ میرے دل میں چمن درکنار آتی ہے کہیں ملے تو مرے گل بدن سے کہہ دینا ترے خیال سے بوئے بہار آتی ہے
موت کی آگ میں تپ تپ کے نکھرتی ہے حیات ڈوب کر جنگ کے دریا میں ابھرتی ہے حیات زلف کی طرح بگڑتی ہے سنورتی ہے حیات وقت کے دوش بلوریں پہ بکھرتی ہے حیات
گرد نفرت سے بچا لیتا ہوں دامن اپنا میں محبت کا پجاری ہوں مسرت کا ندیم لالہ و گل کا کیا کرتی ہے گلشن میں طواف پھر بھی کانٹوں سے الجھتا نہیں دامان نسیم
جنت و کوثر و افرشتہ و حور و جبریل مانتا ہوں تری تخیئل کی رعنائی کو لیکن اک عمر سے اجڑی ہوئی دنیا کی زمیں ڈھونڈتی ہے ترے ذوق چمن آرائی کو
نکہت و رنگ کا طوفان امنڈ آیا ہے آگ سی لگ گئی یورپ کے سمن زاروں میں اس طرف سے بھی گزر قافلۂ صبح بہار ایک بھی پھول نہیں میرے چمن زاروں میں
چشم بینا میں ستاروں کی حقیقت کیا ہے عالم خاک کا جو ذرہ ہے مہ پارہ ہے آسمانوں میں بھٹکتی ہوئی روحوں سے کہو یہ زمیں خود بھی چمکتا ہوا سیارہ ہے
ذہن و جذبات و اشارات و کنایات بنی موت و الفاظ و حکایات و روایات بنی ''خاک'' جب صورت انساں میں نمودار ہوئی زمزمے وید کے قرآن کی آیات بنی
شیشۂ دل کو اگر ٹھیس کوئی لگتی ہے آنسو بے ساختہ آنکھوں سے چھلک پڑتے ہیں لیکن ایسے بھی ہیں کچھ اشک جو ہنگام نشاط مسکراتی ہوئی پلکوں سے ٹپک پڑتے ہیں
کس قدر نور سحر دیکھ کے شرماتے ہیں شب ہوئی ختم ستاروں کو حجاب آتا ہے بام گردوں پہ ہے اب نیر اعظم کا جلوس کوئی معشوق بر افگندہ نقاب آتا ہے
یہ تو ہیں چند ہی جلوے جو چھلک آئے ہیں رنگ ہیں اور مرے دل کے گلستاں میں ابھی میرے آغوش تخیل میں ہیں لاکھوں صبحیں آفتاب اور بھی ہیں میرے گریباں میں ابھی