نہیں مقام کی خوگر طبیعت آزاد
نہیں مقام کی خوگر طبیعت آزاد ہوائے سیر مثال نسیم پیدا کر ہزار چشمہ ترے سنگ راہ سے پھوٹے خودی میں ڈوب کے ضرب کلیم پیدا کر
نہیں مقام کی خوگر طبیعت آزاد ہوائے سیر مثال نسیم پیدا کر ہزار چشمہ ترے سنگ راہ سے پھوٹے خودی میں ڈوب کے ضرب کلیم پیدا کر
فطرت مری مانند نسیم سحری ہے رفتار ہے میری کبھی آہستہ کبھی تیز پہناتا ہوں اطلس کی قبا لالہ و گل کو کرتا ہوں سر خار کو سوزن کی طرح تیز
کل اپنے مریدوں سے کہا پیر مغاں نے قیمت میں یہ معنی ہے در ناب سے دہ چند زہراب ہے اس قوم کے حق میں مئے افرنگ جس قوم کے بچے نہیں خوددار و ہنر مند
میرا ذوق سجدہ ریزی راس جن کو آ گیا اب چمکتے ہیں وہ پتھر آفتابوں کی طرح کون اب کس کو پکارے کس سے ہوں باتیں یہاں شہر میں ہیں لوگ بے چہرہ نقابوں کی طرح
بجھ گیا تیری محبت کا شرارہ تو کیا ڈوبتے دیکھے ہیں گردوں کے ستارے میں نے سرد ہوتے ہوئے دل برف کی قاشوں کی طرح منجمد ہوتے ہوئے دیکھے ہیں دھارے میں نے
متحد ہو کے اٹھے ظلم کے قدموں سے عوام سارے گم گشتہ عزیزان جہاں مل ہی گئے لاکھ گلشن میں بچھائے تھے خزاں نے کانٹے قدم باد بہار آئے تو گل کھل ہی گئے
موت کو جانتے ہیں اصل حیات ابدی زندگانی کو مگر خوار و زبوں کہتے ہیں ''اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو'' جو زمانے کو تصور کا فسوں کہتے ہیں
ان کے کیا رنگ تھے اب یاد نہیں ہے مجھ کو کتنے آنچل مری تخیئل میں لہرائے ہیں ہائے بھولے ہوئے چہروں کے دل آویز نقوش جھلملاتے ہوئے اشکوں میں جھلک آئے ہیں
پھانس کی طرح ہر اک سانس کھٹکتی ہے مجھے نغمے کیوں گھٹ کے رہے جاتے ہیں دل ہی دل میں راز داں اپنے نظر آتے ہیں ہر سمت مگر پھر بھی تنہائی کا احساس بھری محفل میں
جس طرح خواب کے ہلکے سے دھندلکے میں کوئی چاند تاروں کی طرح نور سا برساتا ہے ہاں یونہی میرے تصور کے گلستانوں میں پھول کھل جاتے ہیں جب تیرا خیال آتا ہے