اوس کا ننھا سا قطرہ ہوں پھولوں میں تل جاؤں گا
اوس کا ننھا سا قطرہ ہوں پھولوں میں تل جاؤں گا دولت کی میزان میں لیکن تول نہ پائے گا کوئی شہر کے ہر شہ زور سے کہہ دو پوری کوشش کر دیکھے میرے دست طلب کی مٹھی کھول نہ پائے گا کوئی
اوس کا ننھا سا قطرہ ہوں پھولوں میں تل جاؤں گا دولت کی میزان میں لیکن تول نہ پائے گا کوئی شہر کے ہر شہ زور سے کہہ دو پوری کوشش کر دیکھے میرے دست طلب کی مٹھی کھول نہ پائے گا کوئی
آپ کی راہ میں کیا کیا نہ سہا تھا ہم نے آپ نے پھر بھی وفادار نہیں مانا تھا اور جب ہنستے ہوئے کھیل گئے جان پہ ہم کہہ دیا آپ نے منہ پھیر کے دیوانہ تھا
الجھے ہوئے سانسوں کی گھٹن کیسے دکھاؤں اندر جو ہیں زخموں کے چمن کیسے دکھاؤں یوں شیشۂ دل سنگ حوادث نے کیا چور نس نس میں ہے کرچوں کی چبھن کیسے دکھاؤں
دیوانوں کو اہل خرد نے چوراہے پر سولی دی ہے تھی یہ فرد جرم کہ اس نے فرزانوں پر کنکر پھینکا بار الہٰی تیری دہائی یہ منصف تو اہل نظر ہیں ان کو خبر ہے سنگ ملامت پہلے کس نے کس پر پھینکا
کیوں ہوئے قتل ہم پر یہ الزام ہے قتل جس نے کیا ہے وہی مدعی قاضئ وقت نے فیصلہ دے دیا لاش کو نذر زنداں کیا جائے گا اب عدالت میں یہ بحث چھڑنے کو ہے یہ جو قاتل کو تھوڑی سی زحمت ہوئی یہ جو خنجر میں ہلکا سا خم آ گیا اس کا تاوان کس سے لیا جائے گا
صحرا صحرا غم کے بگولے بستی بستی درد کی آگ جینے کا ماحول نہیں ہے لیکن پھر بھی جیتے ہیں ساغر ساغر زہر گھلا ہے قطرہ قطرہ قاتل ہے یہ سب کچھ معلوم ہے لیکن پیاس لگی ہے پیتے ہیں
رات تو کالی تھی لیکن رات گزر کر صبح جو آئی اور گھٹے کم تاب اجالے اور بڑھے ظلمات کے سائے اب میں سحر کے نغمے گا کر خود کو کب تک دھوکے دوں گا ہونٹ ہوئے جاتے ہیں زخمی دل کا یہ عالم بیٹھا جائے
یہ پر فریب ستارے یہ بجلیوں کے چراغ جواب جلوۂ خورشید ہو نہیں سکتے شب فراق کا پہلا سا درد و غم ہے وہی یہ اور بات ہے اب کھل کے رو نہیں سکتے
اگر مزار پہ سورج بھی لا کے رکھ دو گے اجل نصیب نہ پائے گا روشنی کا سراغ بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں کارواں کتنے جلا سکو تو جلاؤ صداقتوں کے چراغ
رفتہ رفتہ سب ساتھی ساتھ چھوڑ آئے تھے دشت غم میں کاٹی ہے میں نے زندگی تنہا میری موت کا ماتم دشت غم میں کرتا کون پھوٹ پھوٹ کر روئی میری بے کسی تنہا