ہلکا سبزہ تھا جب یاں آئی تھی
ہلکا سبزہ تھا جب یاں آئی تھی اب تو جنگل میں پھنس گئی ہو تم عشق مجھ سے کوئی مذاق نہیں جان دلدل میں دھنس گئی ہو تم
ہلکا سبزہ تھا جب یاں آئی تھی اب تو جنگل میں پھنس گئی ہو تم عشق مجھ سے کوئی مذاق نہیں جان دلدل میں دھنس گئی ہو تم
دفعتاً انورؔ خیال آیا ہے آج اس مرغ کا شوربہ پینے کے بعد اور بوٹیاں کھانے کے بعد اللہ اللہ ایک برقی سرد خانے کے طفیل اس نے کتنی عمر پائی ذبح ہو جانے کے بعد
جو چوٹ بھی لگی ہے وہ پہلی سے بڑھ کے تھی ہر ضرب کربناک پہ میں تلملا اٹھا پانی رسوئی گیس کا بجلی کا فون کا بل اتنے مل گئے ہیں کہ میں بلبلا اٹھا
کبھی ہو گیا میسر نہ ہوا کبھی میسر سر عام کیا کہوں میں کہ یہ روز کی ہیں باتیں کبھی میں نے کش لگایا کبھی کش نہیں لگایا اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں
بھولے سے ہو گئی ہے اگرچہ یہ اس سے بات ایسی نہیں یہ بات جسے بھول جائیے ہے کس بلا کا فوٹو گرافر ستم ظریف میت سے کہہ رہا ہے ذرا مسکرائیے
سنا ہے اس کی منظوری بہر صورت ضروری ہے اسی کے حکم سے اس آرزو کے پھول کھلتے ہیں ہمیں اگلی صدی میں داخلہ درکار ہے انورؔ سنا ہے داخلے کے فارم امریکہ میں ملتے ہیں
میری آنکھوں کو یہ آشوب نہ دکھلا مولا اتنی مضبوط نہیں تاب تماشا میری میرے ٹی وی پہ نظر آئے نہ ڈسکو یارب لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
لطف نظارہ ہے اے دوست اسی کے دم سے یہ نہ ہو پاس تو پھر رونق دنیا کیا ہے تیری آنکھیں بھی کہاں مجھ کو دکھائی دیتیں میری عینک کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
ان کے بغیر فصل بہاراں بھی برگ ریز وہ ساتھ بیٹھ جائیں تو رکشا بھی مرسڈیز یہ باہمی کشش کا کرشمہ ہے دوستو رشوت ہمیں عزیز ہے رشوت کو ہم عزیز
بخیہ تو اس سے ایک بھی سیدھا نہیں لگا آڑا لگا دیا کوئی ترچھا لگا دیا ٹیلر کی بد حواسیاں مجھ سے نہ پوچھیے اس نے مری قمیص میں نیفا لگا دیا