کفر کیا تثلیث کیا الحاد کیا اسلام کیا
کفر کیا تثلیث کیا الحاد کیا اسلام کیا تو بہر صورت کسی زنجیر میں جکڑا ہوا توڑ سکتا ہے تو پہلے توڑ دے سب قید و بند بیڑیوں کے ساز پر نغمات آزادی نہ گا
کفر کیا تثلیث کیا الحاد کیا اسلام کیا تو بہر صورت کسی زنجیر میں جکڑا ہوا توڑ سکتا ہے تو پہلے توڑ دے سب قید و بند بیڑیوں کے ساز پر نغمات آزادی نہ گا
مجرم سرتابیٔ حسن جواں ہو جائیے گل فشانی تا کجا شعلہ فشاں ہو جائیے کھائیے گا اک نگاہ لطف کا کب تک فریب کوئی افسانہ بنا کر بد گماں ہو جائیے
نہ ان کا ذہن صاف ہے نہ میرا قلب صاف ہے تو کیوں دلوں میں جا گزیں وہ بنت صد عفاف ہے مجازؔ آہ کیا کرے وہ دوست بھی حریف بھی فلک تو اب بھی نرم ہے زمین ہی خلاف ہے
وقت کی سعیٔ مسلسل کارگر ہوتی گئی زندگی لحظہ بہ لحظہ مختصر ہوتی گئی سانس کے پردوں میں بجتا ہی رہا ساز حیات موت کے قدموں کی آہٹ تیز تر ہوتی گئی
شاعر ہوں اور امیں ہوں عروس سخن کا میں کرنل نہیں ہوں خان بہادر نہیں ہوں میں کرنل سہی میں خان بہادر سہی مجازؔ اب دوستوں کی ضد ہے تو شاعر نہیں ہوں میں
میکدہ چھوڑ کے میں تیری طرف آیا ہوں سرفروشوں سے میں باندھے ہوئے صف آیا ہوں لاکھ ہوں مے کش آوارہ و آشفتہ مزاج کم سے کم آج تو شمشیر بکف آیا ہوں
زندگی ساز دے رہی ہے مجھے سحر و اعجاز دے رہی ہے مجھے اور بہت دور آسمانوں سے موت آواز دے رہی ہے مجھے
نظر نظر میں اترنا کمال ہوتا ہے نفس نفس میں بکھرنا کمال ہوتا ہے بلندیوں پہ پہنچنا کوئی کمال نہیں بلندیوں پہ ٹھہرنا کمال ہوتا ہے
گو ہو گیا ہے تم کو رخصت ہوئے زمانہ دم بھر کو چین آوے نے راس دوستانہ ہے یاد کیا تمہیں جب پہلے پہل ملے ہم میں میرؔ پڑھ رہا تھا تم آتشؔ و یگانہؔ
نئی قربت میں کھو رہی ہو تم داغ فرقت کے دھو رہی ہو تم یاد میری منا رہی ہو کیا اس کے پہلو میں سو رہی ہو تم