اک آہ آتشیں میں ڈبل کام ہو گیا
اک آہ آتشیں میں ڈبل کام ہو گیا ان کو بخار غیر کو سرسام ہو گیا دو سیر باجرے کا ملیدہ اڑا گئے لالہ کا پیٹ کیا ہوا گودام ہو گیا
اک آہ آتشیں میں ڈبل کام ہو گیا ان کو بخار غیر کو سرسام ہو گیا دو سیر باجرے کا ملیدہ اڑا گئے لالہ کا پیٹ کیا ہوا گودام ہو گیا
جو نہ شوقین ہو ایسا نہیں دلبر کوئی پالتا ہے کوئی بلبل تو کبوتر کوئی بیسیوں چاہنے والوں کی ضرورت کیا ہے ناز اٹھواؤ گے تم ان سے کہ چھپر کوئی
کہیں عبیر کی خوشبو کہیں گلال کا رنگ کہیں پہ شرم سے سمٹے ہوئے جمال کا رنگ چلے بھی آؤ بھلا کر سبھی گلے شکوہ برسنا چاہئے ہولی کے دن وصال کا رنگ
وہ حسب شہر کر لیتا ہے مسلک میں بھی تبدیلی کراچی میں جو سنی ہے وہ پنڈی میں وہابی ہے پیاز اپنی وہ لے جائیں سخن کی ورکشاپوں میں وہ جن کی شاعری کے رنگ پسٹن میں خرابی ہے اکٹھا کر نہ دیں جاناں ہمیں حالات ہی اک دن تمہارے پاس تالا ہے ہمارے پاس چابی ہے
میں نے سنایا اس کو جو اردو میں حال دل کہنے لگی غلط ہیں تمہارے تلفظات میں نے لکھا کہ کیا مرا حلیہ خراب ہے اس نے لکھا نہیں نہیں املا خراب ہے
کچھ اس لئے بھی اسے ٹوٹ کر نہیں چاہا کہ اس کو ٹوٹی ہوئی چیز سے الرجی ہے غزل وہ تیسویں مجھ کو سنا کے کہنے لگی مزید عرض کروں جان من اگر جی ہے
پیاس کی پیدائش تو کل کا قصہ ہے اس دھرتی کا پہلا بیٹا پانی ہے سیم زدہ گھر میں بھی کتنا پیاسا ہوں دیواروں کے اندر کتنا پانی ہے
مجھے ساغر دوبارہ مل گیا ہے تلاطم میں کنارا مل گیا ہے مری بادہ پرستی پر نا جاؤ جوانی کو سہارا مل گیا ہے
تاج جب مرد کے ماتھے پہ نظر آتا ہے یک بیک خوں مری آنکھوں میں اتر آتا ہے جب نظر آتا ہے عورت کی جبیں پر مجھ کو عجز و تسلیم کا ہر نقش ابھر آتا ہے
دل کو محو غم دل دار کئے بیٹھے ہیں رند بنتے ہیں مگر زہر پئے بیٹھے ہیں چاہتے ہیں کہ ہر اک ذرہ شگوفہ بن جائے اور خود دل ہی میں اک خار لئے بیٹھے ہیں