جب کوئی جگنو چمکتا ہے اندھیری رات میں
جب کوئی جگنو چمکتا ہے اندھیری رات میں اس طرح ظلمت میں لہراتی ہے نورانی لکیر جیسے ساحل پر گرجتے بادلوں کے سائے میں جنبش امواج سے نادار مے کش کا ضمیر
جب کوئی جگنو چمکتا ہے اندھیری رات میں اس طرح ظلمت میں لہراتی ہے نورانی لکیر جیسے ساحل پر گرجتے بادلوں کے سائے میں جنبش امواج سے نادار مے کش کا ضمیر
اس طرح آتے ہیں انجام محبت کے خیال عشرتوں میں دل کی پیغام الم دیتے ہوئے جیسے کھیتوں کے کناروں پر اترتی دھوپ میں سرنگوں شاخوں کے سائے کروٹیں لیتے ہوئے
تیرے سر پر جنون ہے پیارے مستقل بے سکون ہے پیارے کھیل ہولی، مگر یہ سوچ کے کھیل آدمی کا یہ خون ہے پیارے
کیف ہی کیف ہے فضاؤں میں رنگ کیا روپ بھی شرابی ہے توڑ لینے دو سیب پیڑوں سے ہاں! طبیعت بڑی گلابی ہے
مندروں، مسجدوں کی دنیا میں شکل و صورت میں نیک ہوتے ہیں اور اس دل کی بات پوچھو تو میکدے میں سب ایک ہوتے ہیں
دل کی محفل کو سجایا ہے بڑی دیر کے بعد اپنے زخموں کو ہنسایا ہے بڑی دیر کے بعد تم بھی آ جاؤ کہ ہر شے پہ بہار آئی ہے آج پھر تم کو بلایا ہے بڑی دیر کے بعد
تھوڑی مے نذر جام کر دیجے ہم غریبوں کی شام کر دیجے اور اٹھا کر نقاب چہرے سے بزم میں قتل عام کر دیجے
اپنے شاگردوں کو یہ عام ہدایت ہے مری کہ سمجھ لیں تہ دل سے وہ بجا و بے جا شعر گوئی میں رہیں مد نظر یہ باتیں کہ بغیر ان کے فصاحت نہیں ہوتی پیدا چست بندش ہو نہ ہو سست یہی خوبی ہے وہ فصاحت سے گرا شعر میں جو حرف دبا عربی فارسی الفاظ جو اردو میں کہیں حرف علت کا برا ان میں ہے گرنا ...
ستم ایجاد کے انداز ستم تو دیکھو امتحاں عشق و ہوس کا یہ نیا رکھا ہے ہر گھڑی عاشق مضطر سے وہ ملتی ہے شبیہ نقشہ بگڑی ہوئی صورت کا بنا رکھا ہے شکوۂ ہجر سے اے داغؔ اثر کی امید آپ نے نام شکایت کا دعا رکھا ہے
سکھایا ہے بزرگوں نے ہمیں حق بات کہنے کو بلا سے جان جائے منہ پہ ہی سچ بول دیتے ہیں ترقی کی نئی راہیں نکالی ہیں ہمیں نے چونچؔ کہ ہم لکڑی کی چابی سے بھی تالا کھول دیتے ہیں