دوپہر میدان گرمی حبس ابر بے متاع
دوپہر میدان گرمی حبس ابر بے متاع سرنگوں ہے خار و خس پر اک گل فیروزہ فام نادم و بے مایہ محزوں مضمحل اندوہ گیں جیسے اک بے رحم و بے انصاف آقا کا غلام
دوپہر میدان گرمی حبس ابر بے متاع سرنگوں ہے خار و خس پر اک گل فیروزہ فام نادم و بے مایہ محزوں مضمحل اندوہ گیں جیسے اک بے رحم و بے انصاف آقا کا غلام
رو رہا تھا گود میں اماں کی اک طفل حسیں اس طرح پلکوں پہ آنسو ہو رہے تھے بے قرار جیسے دیوالی کی شب ہلکی ہوا کے سامنے گاؤں کی نیچی منڈیروں پر چراغوں کی قطار
یاس میں بیداریٔ احساس کا عالم نہ پوچھ ٹھیس یوں لگتی ہے دل پہ طعنۂ ہم راز سے جس طرح سردی کی افسردہ اندھیری رات میں آنکھ کھل جاتی ہے چوکیدار کی آواز سے
مفلسی اور اس میں گھر پر ہم نشینوں کا ہجوم تیرگی میں یاس کی دھندلا گیا حسن امید اس طرح ہے دل پہ اک افسردگی چھائی ہوئی جس طرح پردیس میں بیکار مزدوروں کی عید
بھورے بھورے بادلوں سے آسماں لبریز ہے اس طرح ضو پاش ہے رہ رہ کے ماہ سیم فام جیسے ساحل کی بلندی سے بھری برسات میں گدلے پانی میں حسیں مچھلی کا انداز خرام
حوض میں گر پڑا گلاب کا پھول پاس لانے سے دور جاتا ہے جیسے مدت میں ملنے والے کا نام مشکل سے یاد آتا ہے
بیٹھے بیٹھے ان کی محفل یاد آ جاتی ہے جب دیکھتی ہے یہ سماں تخئیل کی اونچی نگاہ جیسے تھوڑی دیر ننھی بوندیاں پڑنے کے بعد چرخ پر خالی سمٹتے پھیلتے ابر سیاہ
ریل نے سیٹی بجائی شورؔ و دامنؔ چل دیئے چھا گیا ایسا نشاط عقل پر رنج و ملال جیسے اک حساس کو پردیس میں سونے کے وقت دیس کی محبوب و نا ہموار گلیوں کا خیال
مینہ برس کر تھم گیا ہے پھٹ گئے ابر سیاہ ٹہنیاں ہل کر ہوا سے گر رہی ہیں بوندیاں جس طرح یاد وطن میں ڈوبتے سورج کے وقت قید خانے میں نئے قیدی کے اشکوں کا سماں
رات ہے برسات ہے مسجد میں روشن ہے چراغ پڑ رہی ہے روشنی بھیگی ہوئی دیوار پر جیسے اک بیوہ کے آنسو ڈوبتے سورج کے وقت تھم گئے ہوں بہتے بہتے چمپئی رخسار پر