چوم کر اس بت کی پیشانی کو پچھتانا پڑا
چوم کر اس بت کی پیشانی کو پچھتانا پڑا کھنچ گیا میرے لب لعل محبت سے عسل جس طرح عصیاں شعاروں کی سیہ کاری کے بعد کھوکھلی ثابت ہوا کرتی ہے تعمیر عمل
چوم کر اس بت کی پیشانی کو پچھتانا پڑا کھنچ گیا میرے لب لعل محبت سے عسل جس طرح عصیاں شعاروں کی سیہ کاری کے بعد کھوکھلی ثابت ہوا کرتی ہے تعمیر عمل
پڑھ رہی ہیں رات کی خاموشیاں افسون خواب تھم گیا ہے اک پیانو بجتے بجتے بام پر ہے مگر احساس سے موسیقیت کی چھیڑ چھاڑ دل پہ جیسے دور سے رکشے کی گھنٹی کا اثر
دہلی کا اک رئیس بہ ہنگام جاں کنی سر دھن رہا تھا چارہ گروں میں گھرا ہوا جیسے فسوں گروں کے جھمیلے میں نیم شب کھیلے سیاہ ناگ کا تازہ ڈسا ہوا
مفلسی کے وقت اکثر عشرت رفتہ کی یاد یوں دکھاتی ہے جھلک آئینۂ ادراک پر دوپہر میں جس طرح دریا سے میداں کی طرف چلتے پھرتے ابر کے ٹکڑوں کا سایہ خاک پر
شام اور رستے میں ریوڑ کے گزرنے سے غبار جھٹپٹے میں ذرہ ذرہ آنکھ جھپکاتا ہوا جنگلوں میں منتظر خاموشیاں چھائی ہوئی جیسے کوئی تھم گیا ہو راگنی گاتا ہوا
ہوا کے سیال بازوؤں پر گھٹا کے شب رنگ کارواں ہیں نسیم مستانہ رقص میں ہے فضا میں نشہ سا چھا رہا ہے خنک ترائی کے سنگ پارے اثر میں ڈوبے ہوئے پڑے ہیں کہ جیسے کوئی حسیں نہا کر گھنیری زلفیں سکھا رہا ہے
گرمیاں حبس رات تاریکی اک دیا دور ٹمٹماتا ہے جیسے اک پرخلوص انساں کا مشکلوں میں خیال آتا ہے
دوپہر ہونے کو ہے سنا گیا جنگل تمام اک کرن شاخوں سے چھن کر آ رہی ہے پھول پر جس طرح اک گاؤں کی دوشیزۂ معصوم پر شہر کے بے غیرت و بے مہر انساں کی نظر
جب کسی کی یاد آ کر تلملا جاتا ہے دل جگمگا اٹھتی ہے کچھ اس شان سے بزم دماغ جیسے ساون کی برستی رات میں اک نازنیں صحن میں زینے سے اترے ہاتھ میں لے کر چراغ
آسماں پر ہیں خراماں ابر پاروں کے ہجوم اس طرح کھل کھل کے چھپتی ہے جبین آفتاب جس طرح ہمسایوں کی آمد سے ہنگام سحر گھر میں شرمیلی نئی دلہن کا انداز نقاب