نہ دید ہے نہ سخن اب نہ حرف ہے نہ پیام
نہ دید ہے نہ سخن اب نہ حرف ہے نہ پیام کوئی بھی حیلۂ تسکیں نہیں اور آس بہت ہے امید یار نظر کا مزاج درد کا رنگ تم آج کچھ بھی نہ پوچھو کہ دل اداس بہت ہے
نہ دید ہے نہ سخن اب نہ حرف ہے نہ پیام کوئی بھی حیلۂ تسکیں نہیں اور آس بہت ہے امید یار نظر کا مزاج درد کا رنگ تم آج کچھ بھی نہ پوچھو کہ دل اداس بہت ہے
دل رہین غم جہاں ہے آج ہر نفس تشنۂ فغاں ہے آج سخت ویراں ہے محفل ہستی اے غم دوست تو کہاں ہے آج
یہ خوں کی مہک ہے کہ لب یار کی خوشبو کس راہ کی جانب سے صبا آتی ہے دیکھو گلشن میں بہار آئی کہ زنداں ہوا آباد کس سمت سے نغموں کی صدا آتی ہے دیکھو
زنداں زنداں شور انا الحق محفل محفل قل قل مے خون تمنا دریا دریا دریا دریا دریا عیش کی لہر دامن دامن رت پھولوں کی آنچل آنچل اشکوں کی قریہ قریہ جشن بپا ہے ماتم شہر بہ شہر
تیرا معیار گرانا بھی نہیں ہے ہم نے اور اپنے بھی برابر نہیں ہونے دینا یہی سوچا ہے کہ اب جان چھڑا لوں دل سے اس نے حالات کو بہتر نہیں ہونے دینا
تم تو یوں ہی ہوئے ہو افسردہ آئنے داغدار ہوتے ہیں میں ذرا عاجزی میں رہتا ہوں لوگ سر پر سوار ہوتے ہیں
جنہیں اک دوسرے کی تھی ضرورت وہ سب اک دوسرے کے ہو گئے ہیں کسی کا جسم نیلا پڑ گیا ہے کسی کے ہاتھ پیلے ہو گئے ہیں
باغ تھا پھول تھے محبت تھی یاد ہے چودہ فروری کے دن اپنے دن تو گزار بیٹھا ہوں چاہئے اب مجھے کسی کے دن
گدا ہوں مجھ کو لیکن دولت کونین حاصل ہے وہ آئیں گھر مرے تقدیر تھی ایسی کہاں میری میں ان کو دیکھ کر احسانؔ یہ محسوس کرتا ہوں کہ جیسے مل رہی ہو مجھ کو عمر رائیگاں میری
ہم نشیں اف اختتام بزم مے نوشی نہ پوچھ ہو رہا تھا اس طرح محسوس ہوش آنے کے بعد جس طرح دیہات کے اسٹیشنوں پر دن ڈھلے اک سکوت مضمحل گاڑی گزر جانے کے بعد