وقف حرمان و یاس رہتا ہے
واقف حرمان و یاس رہتا ہے دل ہے اکثر اداس رہتا ہے تم تو غم دے کے بھول جاتے ہو مجھ کو احساں کا پاس رہتا ہے
واقف حرمان و یاس رہتا ہے دل ہے اکثر اداس رہتا ہے تم تو غم دے کے بھول جاتے ہو مجھ کو احساں کا پاس رہتا ہے
فضائے دل پہ اداسی بکھرتی جاتی ہے فسردگی ہے کہ جاں تک اترتی جاتی ہے فریب زیست سے قدرت کا مدعا معلوم یہ ہوش ہے کہ جوانی گزرتی جاتی ہے
نہ آج لطف کر اتنا کہ کل گزر نہ سکے وہ رات جو کہ ترے گیسوؤں کی رات نہیں یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہم دم وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے
صبح پھوٹی تو آسماں پہ ترے رنگ رخسار کی پھوہار گری رات چھائی تو روئے عالم پر تیری زلفوں کی آبشار گری
پھر حشر کے ساماں ہوئے ایوان ہوس میں بیٹھے ہیں ذوی العدل گنہ گار کھڑے ہیں ہاں جرم وفا دیکھیے کس کس پہ ہے ثابت وہ سارے خطا کار سر دار کھڑے ہیں
ضبط کا عہد بھی ہے شوق کا پیمان بھی ہے عہد و پیماں سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے درد اتنا ہے کہ ہر رگ میں ہے محشر برپا اور سکوں ایسا کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
آ گئی فصل سکوں چاک گریباں والو سل گئے ہونٹ کوئی زخم سلے یا نہ سلے دوستو بزم سجاؤ کہ بہار آ گئی ہے کھل گئے زخم کوئی پھول کھلے یا نہ کھلے
نہ پوچھ جب سے ترا انتظار کتنا ہے کہ جن دنوں سے مجھے تیرا انتظار نہیں ترا ہی عکس ہے ان اجنبی بہاروں میں جو تیرے لب ترے بازو ترا کنار نہیں
جو پیرہن میں کوئی تار محتسب سے بچا دراز دستئ پیر مغاں کی نذر ہوا اگر جراحت قاتل سے بخشوا لائے تو دل سیاست چارہ گراں کی نذر ہوا