ان دنوں رسم و رہ شہر نگاراں کیا ہے
ان دنوں رسم و رہ شہر نگاراں کیا ہے قاصدا قیمت گلگشت بہاراں کیا ہے کوئے جاناں ہے کہ مقتل ہے کہ مے خانہ ہے آج کل صورت بربادیٔ یاراں کیا ہے
ان دنوں رسم و رہ شہر نگاراں کیا ہے قاصدا قیمت گلگشت بہاراں کیا ہے کوئے جاناں ہے کہ مقتل ہے کہ مے خانہ ہے آج کل صورت بربادیٔ یاراں کیا ہے
ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال منال کا پوچھتے ہو جو عمر سے ہم نے بھر پایا سب سامنے لائے دیتے ہیں دامن میں ہے مشت خاک جگر ساغر میں ہے خون حسرت مے لو ہم نے دامن جھاڑ دیا لو جام الٹائے دیتے ہیں
دیوار شب اور عکس رخ یار سامنے پھر دل کے آئنے سے لہو پھوٹنے لگا پھر وضع احتیاط سے دھندلا گئی نظر پھر ضبط آرزو سے بدن ٹوٹنے لگا
ڈھلتی ہے موج مے کی طرح رات ان دنوں کھلتی ہے صبح گل کی طرح رنگ و بو سے پر ویراں ہیں جام پاس کرو کچھ بہار کا دل آرزو سے پر کرو آنکھیں لہو سے پر
ہزار درد شب آرزو کی راہ میں ہے کوئی ٹھکانہ بتاؤ کہ قافلہ اترے قریب اور بھی آؤ کہ شوق دید مٹے شراب اور پلاؤ کہ کچھ نشہ اترے
آج تنہائی کسی ہم دم دیریں کی طرح کرنے آئی ہے مری ساقی گری شام ڈھلے منتظر بیٹھے ہیں ہم دنوں کہ مہتاب ابھرے اور ترا عکس جھلکنے لگے ہر سائے تلے
رات ڈھلنے لگی ہے سینوں میں آگ سلگاؤ آبگینوں میں دل عشاق کی خبر لینا پھول کھلتے ہیں ان مہینوں میں
مقتل میں نہ مسجد نہ خرابات میں کوئی ہم کس کی امانت ہیں غم کار جہاں دیں شاید کوئی ان میں سے کفن پھاڑ کے نکلے اب جائیں شہیدوں کے مزاروں پہ اذاں دیں
باقی ہے کوئی ساتھ تو بس ایک اسی کا پہلو میں لیے پھرتے ہیں جو درد کسی کا اک عمر سے اس دھن میں کہ ابھرے کوئی خورشید بیٹھے ہیں سہارا لیے شمع سحری کا
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے ہر ایک حلقۂ زنجیر میں زباں میں نے