تمہارے حسن سے رہتی ہے ہمکنار نظر
تمہارے حسن سے رہتی ہے ہمکنار نظر تمہاری یاد سے دل ہم کلام رہتا ہے رہی فراغت ہجراں تو ہو رہے گا طے تمہاری چاہ کا جو جو مقام رہتا ہے
تمہارے حسن سے رہتی ہے ہمکنار نظر تمہاری یاد سے دل ہم کلام رہتا ہے رہی فراغت ہجراں تو ہو رہے گا طے تمہاری چاہ کا جو جو مقام رہتا ہے
کھلے جو ایک دریچے میں آج حسن کے پھول تو صبح جھوم کے گل زار ہو گئی یک سر جہاں کہیں بھی گرا نور ان نگاہوں سے ہر ایک چیز طرح دار ہو گئی یک سر
رفیق راہ تھی منزل ہر اک تلاش کے بعد چھٹا یہ ساتھ تو رہ کی تلاش بھی نہ رہی ملول تھا دل آئینہ ہر خراش کے بعد جو پاش پاش ہوا اک خراش بھی نہ رہی
ہمارے دم سے ہے کوئے جنوں میں اب بھی خجل عبائے شیخ و قبائے امیر و تاج شہی ہمیں سے سنت منصور و قیس زندہ ہے ہمیں سے باقی ہے گل دامنی و کج کلہی
صبا کے ہاتھ میں نرمی ہے ان کے ہاتھوں کی ٹھہر ٹھہر کے یہ ہوتا ہے آج دل کو گماں وہ ہاتھ ڈھونڈ رہے ہیں بساط محفل میں کہ دل کے داغ کہاں ہیں نشست درد کہاں
ترا جمال نگاہوں میں لے کے اٹھا ہوں نکھر گئی ہے فضا تیرے پیرہن کی سی نسیم تیرے شبستاں سے ہو کے آئی ہے مری سحر میں مہک ہے ترے بدن کی سی
دیدۂ تر پہ وہاں کون نظر کرتا ہے کاسۂ چشم میں خوں ناب جگر لے کے چلو اب اگر جاؤ پئے عرض و طلب ان کے حضور دست و کشکول نہیں کاسۂ سر لے کے چلو
جاں بیچنے کو آئے تو بے دام بیچ دی اے اہل مصر وضع تکلف تو دیکھیے انصاف ہے کہ حکم عقوبت سے پیشتر اک بار سوئے دامن یوسف تو دیکھیے
مے خانوں کی رونق ہیں کبھی خانقہوں کی اپنا لی ہوس والوں نے جو رسم چلی ہے دلدارئ واعظ کو ہمیں باقی ہیں ورنہ اب شہر میں ہر رند خرابات ولی ہے
فکر سود و زیاں تو چھوٹے گی منت این و آں تو چھوٹے گی خیر دوزخ میں مے ملے نہ ملے شیخ صاحب سے جاں تو چھوٹے گی