لمحہ لمحہ موت کو بھی زندگی سمجھا ہوں میں
لمحہ لمحہ موت کو بھی زندگی سمجھا ہوں میں دوسروں کی ہی مسرت کو خوشی سمجھا ہوں میں کیا بتاؤں کون ہوں میں نے تو دیکھا ہی نہیں آپ نے جو کہہ دیا خود کو وہی سمجھا ہوں میں
لمحہ لمحہ موت کو بھی زندگی سمجھا ہوں میں دوسروں کی ہی مسرت کو خوشی سمجھا ہوں میں کیا بتاؤں کون ہوں میں نے تو دیکھا ہی نہیں آپ نے جو کہہ دیا خود کو وہی سمجھا ہوں میں
پوچھا کیسے؟ تو ہنس کے فرمایا بس یوں ہی اک نگاہ کرنا تھی اور یہ بن ٹھن کے کس لئے آئے بولے دنیا تباہ کرنا تھی
کیا ضد ہے کہ برسات بھی ہو اور نہیں بھی ہو تم کون ہو جو ساتھ بھی ہو اور نہیں بھی ہو پھر بھی انہیں لمحات میں جانے سے فائدہ؟ پل بھر کو ملاقات بھی ہو اور نہیں بھی ہو
جسم شفاف میں شعلہ سا رواں ہو جیسے کھلکھلاہٹ میں بھی آواز سناں ہو جیسے تیر چلتے ہوئے دیکھوں تو بچاؤں دل کو اف وہ انگڑائی کہ ارجن کی کماں ہو جیسے
اجنبی بن کے ہنسا کرتی ہے زندگی کس سے وفا کرتی ہے کیا جلاؤں میں محبت کے چراغ ایک آندھی سی چلا کرتی ہے
سمیٹ لو ذرا آنچل کہ روشنی پھیلے بجا دو پاؤں کی چھاگل کہ نغمگی پھیلے نقاب زلفوں کی چہرے پہ خوب ہے لیکن ہٹا دو چاند سے بادل کہ چاندنی پھیلے
حلقۂ مے سے کسی کو بھی نکلنے نہ دیا اٹھ کے کچھ دور بھی مے خانے سے چلنے نہ دیا دور پر دور چلاتی رہی اک مست نظر آج تو جام بھی ساقی سے بدلنے نہ دیا
عید خوشیوں کا دن سہی لیکن اک اداسی بھی ساتھ لاتی ہے زخم ابھرتے ہیں جانے کب کب کے جانے کس کس کی یاد آتی ہے
اپنے انعام حسن کے بدلے ہم تہی دامنوں سے کیا لینا آج فرقت زدوں پہ لطف کرو پھر کبھی صبر آزما لینا
تمام شب دل وحشی تلاش کرتا ہے ہر اک صدا میں ترے حرف لطف کا آہنگ ہر ایک صبح ملاتی ہے بار بار نظر ترے دہن سے ہر اک لالہ و گلاب کا رنگ