کس لئے اب حیات باقی ہے
کس لئے اب حیات باقی ہے کیا کوئی واردات باقی ہے طرزؔ کیسے کٹیں گے یہ لمحات؟ جام خالی ہے رات باقی ہے
کس لئے اب حیات باقی ہے کیا کوئی واردات باقی ہے طرزؔ کیسے کٹیں گے یہ لمحات؟ جام خالی ہے رات باقی ہے
مے کشی کا شباب باقی ہے ہوش ہے اضطراب باقی ہے زندگی تھوڑی دیر ساتھ نہ چھوڑ جام میں کچھ شراب باقی ہے
کھو کے خود ان کو پا کے پیتا ہوں اک فضا سی بنا کے پیتا ہوں لوگ پانی ملا کے پیتے ہیں میں نگاہیں ملا کے پیتا ہوں
تلخیوں میں سما کے پیتا ہوں جاں کی بازی لگا کے پیتا ہوں غم سے گھبرا کے لوگ پیتے ہیں غم کو میں مے بنا کے پیتا ہوں
خادم اردو زباں ہوں شاعری مکتب مرا اور بھی رشتے ہیں لیکن دوستی مذہب مرا لکھنؤ میرا وطن ہے بمبئی میرا نصیب طرزؔ کہتے ہیں مجھے سب، مے کشی مشرب مرا
آسرا جب بھی کوئی ٹوٹے ہے ایک چھالا سا دل میں پھوٹے ہے کیا کہوں اس کے پیار کا عالم پھلجھڑی سی بدن سے چھوٹے ہے
غم کی تاریک فضاؤں سے نکلنے نہ دیا شمع روشن جو کوئی کی بھی تو جلنے نہ دیا تم نے یہ کیا کیا اے جھوٹی امیدو کہ مجھے صبح کی آس تو دی رات کو ڈھلنے نہ دیا
اب کیا بتائیں کیا تھا سماں پیرہن کے بیچ جذبات ہو رہے تھے جواں پیرہن کے بیچ کیا جھلملی بھی روکتی گورے بدن کی آنچ پگھلا ہوا تھا شعلہ رواں پیرہن کے بیچ
نقش تیکھے بانکی چتون دانت موتی کی قطار صبح کی لالی کا منظر اس کی رنگت کا نکھار جھوم کر رہ رہ کے اس کے کھلکھلانے کا سماں پھول برسائے ہوا سے جیسے شاخ ہر سنگھار
ان کو سجدہ کر لیا محبوب کی تصویر جان خاک پا آنکھوں میں لی اے چارہ گر اکسیر جان چشم ابرو، زلف خوشبو، رنج و راحت مرگ و زیست یہ سبھی ہیں نعمتیں لیکن انہیں زنجیر جان