پار اترا ہوں کس قرینے سے
پار اترا ہوں کس قرینے سے موج اٹھا لے گئی سفینے سے آنسوؤ کیا بنے گا پینے سے جی ہی اکتا گیا ہے جینے سے
پار اترا ہوں کس قرینے سے موج اٹھا لے گئی سفینے سے آنسوؤ کیا بنے گا پینے سے جی ہی اکتا گیا ہے جینے سے
سکون زندگی ترک عمل کا نام ہے شاید نہ خوش ہوتا ہوں آساں سے نہ گھبراتا ہوں مشکل سے جدائی پر بھی حسن و عشق کی وابستگی دیکھو کہ مجنوں آہ کرتا ہے دھواں اٹھتا ہے محمل سے
بت کہتے ہیں مر جا مر جا حکم خدا ہے اور ٹھہر جا ہائے کو نعرۂ ہو سے بدل دے یار حفیظؔ یہ کام تو کر جا
آیا تھا بزم شعر میں عرض ہنر کو میں اب جا رہا ہوں ڈھونڈنے اہل نظر کو میں سر پھوڑنا کمال جنوں بھی نہیں رہا بیٹھا رہوں گا سر میں لیے درد سر کو میں
حیران ہو کے منہ مرا تکتے ہیں بار بار احساں کیا یہ گریۂ بے اختیار نے اغیار سے بھی کرنے لگے وعدہ ہائے حشر عادت بگاڑ دی ہے مرے اعتبار نے
سامنے دختر برہمن ہے آج اوسان کا خدا حافظ جان دینے سے ہچکچاتا ہوں مرے ایمان کا خدا حافظ
جو بھی ہے صورت حالات کہو چپ نہ رہو رات اگر ہے تو اسے رات کہو چپ نہ رہو گھیر لایا ہے اندھیروں میں ہمیں کون حفیظؔ آؤ کہنے کی ہے جو بات کہو چپ نہ رہو
خودی کو لے گئے کچھ آدمی اتنی بلندی پر تکبر میں لگے کہنے مقام کبریا کیا ہے اب ایسی صورت حالات میں کیسے یہ ہے ممکن خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
کلام شاعر مشرق سے فال اک روز لی میں نے ہوا دشوار جب جینا کرائے کے مکانوں میں کہاں جاؤں کروں کیا جب یہ پوچھا تو جواب آیا تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
ادھر جھپٹے ادھر پلٹے اسے جکڑا اسے پکڑا لہو کو گرم رکھنے کے بہانے ہیں اڑانوں میں ہر اک لڑکی نظر آتی ہے ان کو فاختہ جیسی عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں