تو بھلا ہے تو برا ہو نہیں سکتا اے ذوقؔ
تو بھلا ہے تو برا ہو نہیں سکتا اے ذوقؔ ہے برا وہ ہی کہ جو تجھ کو برا جانتا ہے اور اگر تو ہی برا ہے تو وہ سچ کہتا ہے کیوں برا کہنے سے تو اس کے برا مانتا ہے
تو بھلا ہے تو برا ہو نہیں سکتا اے ذوقؔ ہے برا وہ ہی کہ جو تجھ کو برا جانتا ہے اور اگر تو ہی برا ہے تو وہ سچ کہتا ہے کیوں برا کہنے سے تو اس کے برا مانتا ہے
نذر دیں نفس کش کو دنیا دار واہ کیا تیری کارسازی ہے سچ کہا ہے کسی نے یہ اے ذوقؔ مال موذی نصیب غازی ہے
جن کو اس وقت میں اسلام کا دعویٰ ہے کمال غور سے دیکھو تو اے ذوقؔ ہے ان کا یہ حال جس طرح سے کہ ہنسا دینے کو بے دینوں کے نقل کرتا ہو مسلمان کی کافر نقال
دنیا سے ذوقؔ رشتۂ الفت کو توڑ دے جس سر کا ہے یہ بال اسی سر میں جوڑ دے پر ذوقؔ تو نہ چھوڑے گا اس پیر زال کو یہ پیر زال گر تجھے چاہے تو چھوڑ دے
وقت کی دھوپ تیز ہوتی ہے ہم سفر ہو تو راہ کٹ جائے سہل ہو جائے پھر تو جہد حیات دل نہ سہمے خیال بٹ جائے
ہم غریبوں کے لیے عید کہاں زندگی یاس کا گہوارہ ہے ہر نفس تازہ امیدوں کے لیے اک دہکتا ہوا انگارہ ہے
سکوت زندگی ہے دشمن جاں اب تو آ جاؤ مری ہستی ہے خود مجھ سے پریشاں اب تو آ جاؤ سنا ہے آج کل میں اور بھی بے تاب رہتا ہوں مری آنکھوں سے حسرت ہے نمایاں اب تو آ جاؤ
میری مایوس جوانی تجھے راس آ نہ سکی سالہا سال امیدوں کے ثمر مل نہ سکے بارہا موج صبا پاس سے گزری لیکن تیرے ہونٹوں پہ تبسم کے کنول کھل نہ سکے
قدم قدم پہ نگاہیں پکارتی ہیں مجھے نفس نفس کا کوئی اعتبار ہو تو رکوں یہ دل کہ تھا جو کبھی مرکز محبت بھی کسی کے واسطے پھر بے قرار ہو تو رکوں
تم آئے نصیب جاگ اٹھا مایوس نگاہ مسکرائی لیکن کوئی کہہ رہا ہے مجھ سے انجام وصال ہے جدائی