دن کی صورت نظر آتے ہی مری رات ہوئی
دن کی صورت نظر آتے ہی مری رات ہوئی بازی آغاز نہ پائی تھی کہ شہ مات ہوئی زندگی بھی نہیں سمجھی مرے مر مٹنے کو موت بھی پوچھتی پھرتی ہے یہ کیا بات ہوئی
دن کی صورت نظر آتے ہی مری رات ہوئی بازی آغاز نہ پائی تھی کہ شہ مات ہوئی زندگی بھی نہیں سمجھی مرے مر مٹنے کو موت بھی پوچھتی پھرتی ہے یہ کیا بات ہوئی
یا خادم دیں ہونا یا مظہر دیں ہونا یا تخت نشیں ہونا یا خاک نشیں ہونا جب کچھ بھی نہیں کرنا جب کچھ بھی نہیں ہونا اس ننگ سے بہتر ہے پیوند زمیں ہونا
جیے جاتا ہوں اس شرمندگی میں مجھے مرنا ہے ایسی زندگی میں مری صورت کدورت بن رہی ہے جبین یار کی تابندگی میں
اجنبیوں کے شہر میں گم ہوں مگر میں کون ہوں دیدہ و دل کی ہے تلاش کس کو خبر میں کون ہوں اپنی نگاہ کے سوا کچھ بھی نہیں میں دیکھتا مجھ کو بھی دیکھنا ذرا اہل نظر میں کون ہوں
میرے آقا تجھے بندے کا خیال آ ہی گیا آخر کار مرا یوم وصال آ ہی گیا بے تکلف اسے جانا غلطی ہو ہی گئی غلطی ہو ہی گئی لب پہ سوال آ ہی گیا
جو مرے دل میں ہے کہنے دیجیے یا مجھے خاموش رہنے دیجیے پھول ہوں کانٹا ہوں جو کچھ ہوں مجھے آنسوؤں کی رو میں بہنے دیجیے
حیات جاوداں ہم کیا کریں گے جہاں تم ہو وہاں ہم کیا کریں گے کہے گی کیا ہماری بے زبانی بوقت امتحاں ہم کیا کریں گے
مدفن غریباں ہے آؤ فاتحہ پڑھ لیں ہم رہو ٹھہر جاؤ دوستوں کی بستی ہے تھا ابال مستی کا سر بلند ماضی میں حال دیکھنا اپنا انتہا کی پستی ہے
ذکر استاد فن کا جانے دے کسی نقاد فن کا حال سنا خالقان سخن کی فکر نہ کر قاتلان سخن کی چال سنا
حسن کی آنکھ اگر حیا نہ کرے عشق زندہ رہے خدا نہ کرے کس قدر بے کسی کا عالم ہے چاہتا ہوں کوئی دعا نہ کرے