سو گئے انجم شب یاد نہ آ
سو گئے انجم شب یاد نہ آ اے مری جان طرب یاد نہ آ مری پتھرائی ہوئی آنکھوں میں کوئی آنسو نہیں اب یاد نہ آ
سو گئے انجم شب یاد نہ آ اے مری جان طرب یاد نہ آ مری پتھرائی ہوئی آنکھوں میں کوئی آنسو نہیں اب یاد نہ آ
جہاں آساں تھا دن کو رات کرنا وہ گلیاں ہو گئی ہیں ایک سپنا اب ان کی یاد ہے پلکوں پہ روشن اب ان کو کہہ نہیں سکتے ہم اپنا
دیار سبزہ و گل سے نکل کر دل و جاں نذر صحرا ہو گئے ہیں کہاں وہ چاند سی ہنستی جبینیں گھنی تاریکیوں میں کھو گئے ہیں
مدتیں ہو گئیں خطا کرتے شرم آتی ہے اب دعا کرتے چاند تارے بھی ان کا اے جالبؔ تھرتھراتے ہیں سامنا کرتے
تجھے پایا کہ تجھ کو کھو دیا ہے یہ اکثر سوچ کر دل رو دیا ہے ہمارا داغ دل جائے نہ جائے ترا دامن تو ہم نے دھو دیا ہے
غم کے سانچے میں ڈھل سکو تو چلو تم مرے ساتھ چل سکو تو چلو دور تک تیرگی میں چلنا ہے صورت شمع جل سکو تو چلو
زلف کی بات کیے جاتے ہیں دن کو یوں رات کیے جاتے ہیں چند آنسو ہیں انہیں بھی جالبؔ نذر حالات کیے جاتے ہیں
بات بھی جس سے اب نہیں ممکن آؤ اس بے وفا کی بات کریں شیخ صاحب کو لے کے ساتھ چلیں بت کدے میں خدا کی بات کریں
او حسرت وصال نہ دیکھ اس طرح نہ دیکھ او بد نظر کہیں وہ مکرر خفا نہ ہو کیا ہو گیا جو شان خدا کہہ دیا تجھے اتنی سی بات پر بت کافر خفا نہ ہو
زندگی اور ملے اور ملے اور ملے شرط یہ ہے کہ پرانا وہی لاہور ملے دور ہے تازہ حماقت کا وفا کو مطلوب ہے کوئی دوست جو آ کر مجھے فی الفور ملے