تیری بستی میں جدھر سے گزرے
تیری بستی میں جدھر سے گزرے ہائے کیا لوگ نظر سے گزرے کتنی یادوں نے ہمیں تھام لیا ہم جو اس راہ گزر سے گزرے
تیری بستی میں جدھر سے گزرے ہائے کیا لوگ نظر سے گزرے کتنی یادوں نے ہمیں تھام لیا ہم جو اس راہ گزر سے گزرے
مری نگاہ سے وہ دیکھتے رہے ہیں مجھے رہا ہوں میں بھی کبھی اس نگاہ کا معیار یہاں نہ تلخ نوائی سے کام لو جالبؔ رہین درد نہیں ہیں بستیاں یہ دیار
کوچۂ صبح میں جا پہنچے ہم صورت موج صبا پہنچے ہم لاکھ اس گل کا پیام آیا تھا لاکھ تھے آبلہ پا پہنچے ہم
ابھی اے دوست ذوق شاعری ہے وجہ رسوائی تری بستی میں ہم پر اور بھی الزام آئیں گے اگر اب بھی ہمارا ساتھ تو اے دل نہیں دے گا تو ہم اس شہر میں تجھ کو اکیلا چھوڑ جائیں گے
نت نئے شہر نت نئی دنیا ہم کو آوارگی سے پیار رہا ان کے آنے کے بعد بھی جالبؔ دیر تک ان کا انتظار رہا
سبزہ زاروں میں گزر تھا اپنا مست و شاداب نگر تھا اپنا جب اٹھاتا ہے کوئی محفل سے یاد آتا ہے کہ گھر تھا اپنا
رنگ و بوئے گلاب کہہ لوں گا موج جام شراب کہہ لوں گا لوگ کہتے ہیں تیرا نام نہ لوں میں تجھے ماہتاب کہہ لوں گا
دوستو مشورے نہ دو ہم کو مشوروں سے دماغ جلتا ہے یہ کسی نے غلط کہا تم سے ان کھلونوں سے جی بہلتا ہے
ڈوب جائے گا آج بھی خورشید آج بھی تم نظر نہ آؤ گے بیت جائے گی اس طرح ہر شام زندگی بھر ہمیں رلاؤ گے
اشک آنکھوں میں اب ہیں آئے سے بات چھپتی نہیں چھپائے سے اپنی باتیں کہیں تو کس سے کہیں سب یہاں لوگ ہیں پرائے سے