تیرے ماتھے پہ یہ نمود شفق
تیرے ماتھے پہ یہ نمود شفق تیرے عارض پہ یہ شگفتہ گلاب رنگ جام شراب پر مت جا یہ تو شرما گئی ہے تجھ سے شراب
تیرے ماتھے پہ یہ نمود شفق تیرے عارض پہ یہ شگفتہ گلاب رنگ جام شراب پر مت جا یہ تو شرما گئی ہے تجھ سے شراب
کس کو معلوم تھا کہ عہد وفا اس قدر جلد ٹوٹ جائے گا کیا خبر تھی کہ ہاتھ لگتے ہی پھول کا رنگ چھوٹ جائے گا
دوست! کیا حسن کے مقابل میں عشق کی جیت سن سکے گی تو دل نازک سے پہلے پوچھ تو لے کیا مرے گیت سن سکے گی تو
صرف تسکیں ہے دست ناز ترا کم نہیں شورش جگر پھر بھی میری آنکھوں کے روبرو ہے تو ڈھونڈھتی ہے تجھے نظر پھر بھی
یوں ہی بدلا ہوا سا اک انداز یوں ہی روٹھی ہوئی سی ایک نظر عمر بھر میں نے تجھ پہ ناز کیا تو کسی دن تو ناز کر مجھ پر
یوں اس کے حسین عارضوں پر پلکوں کے لچک رہے ہیں سائے چھٹکی ہوئی چاندنی میں اخترؔ جیسے کوئی آڑ میں بلائے
شفیق پوروں کا لمس پا کر بدن صحیفے میں ڈھل رہا تھا ضعیف انگلی کو تھام کر میں بڑی سہولت سے چل رہا تھا
منتشر ہم ہیں تو رخساروں پہ شبنم کیوں ہے آئنے ٹوٹتے رہتے ہیں تمہیں غم کیوں ہے وہی لمحے وہی منظر وہی یادوں کے ہجوم میرے کمرے میں اجالا ہے مگر کم کیوں ہے
سورج کے خداؤں کی یہ کور نگاہی ہے محلوں میں اجالا ہے کٹیوں میں سیاہی ہے محسوس یہ ہوتا ہے یہ دور تباہی ہے شیشے کی عدالت ہے پتھر کی گواہی ہے
ایسا کہاں کہ شہر کے منظر بدل گئے منظر وہی ہیں صرف ستم گر بدل گئے چھوڑو تم انقلاب زمانہ کا تذکرہ وہ اور تھے جو حرف مقدر بدل گئے