کر چکی ہے مری محبت کیا
کر چکی ہے مری محبت کیا تیری بے اعتنائیوں کو معاف عقل نے پوچھنا بہت چاہا کہہ سکا دل نہ کچھ بھی تیرے خلاف
کر چکی ہے مری محبت کیا تیری بے اعتنائیوں کو معاف عقل نے پوچھنا بہت چاہا کہہ سکا دل نہ کچھ بھی تیرے خلاف
اپنے آئینۂ تمنا میں اب بھی مجھ کو سنوارتی ہے تو میں بہت دور جا چکا لیکن مجھ کو اب تک پکارتی ہے تو
ہائے یہ تیرے ہجر کا عالم کس قدر زرد ہے حسیں مہتاب اور یہ مست آبشار کی لے کوئی روتا ہو جیسے پی کے شراب
نا مرادی کے بعد بے طلبی اب ہے ایسا سکون جینے میں جیسے دریا میں ہاتھ لٹکائے سو گیا ہو کوئی سفینے میں
یوں ندی میں غروب کے ہنگام جگمگاتی شفق فروز کرن چلتے چلتے بھی آئنہ دیکھے جیسے کوئی سجی سجائی دلہن
چند لمحوں کو تیرے آنے سے تپش دل نے کیا سکوں پایا دھوپ میں گرم کوہساروں کی ابر کا جیسے دوڑتا سایا
یوں دل کی فضا میں کھیلتے ہیں رہ رہ کے امید کے اجالے چھپ چھپ کے کوئی شریر لڑکی آئینے کا عکس جیسے ڈالے
آج مدت کے بعد ہونٹوں پر ایک مبہم سا گیت آیا ہے اس کو نغمہ تو کہہ نہیں سکتا یہ تو نغمے کا ایک سایا ہے
رات جب بھیگ کے لہراتی ہے چاندنی اوس میں بس جاتی ہے اپنی ہر سانس سے مجھ کو اخترؔ ان کے ہونٹوں کی مہک آتی ہے
تتلی کوئی بے طرح بھٹک کر پھر پھول کی سمت اڑ رہی ہے ہر پھر کے مگر تری ہی جانب اس دل کی نگاہ مڑ رہی ہے