ایسے دائم تو رہین سحر و شام نہیں
ایسے دائم تو رہین سحر و شام نہیں سر خوشی بھی مری محتاج مئے و جام نہیں دل ہی خود میرا مسرت کا ہے اک سر چشمہ جاں کے دیدار میرا ذوق در و بام نہیں
ایسے دائم تو رہین سحر و شام نہیں سر خوشی بھی مری محتاج مئے و جام نہیں دل ہی خود میرا مسرت کا ہے اک سر چشمہ جاں کے دیدار میرا ذوق در و بام نہیں
تبسم ترا خوب سے خوب تر ہے کہ ساتھ اس کے تر تیری چشم حسیں ہے سحر میں نہیں جیسے کہ دل فریبی گہر باری شبنم کی جب تک نہیں ہے
ہنگامۂ ہستی سے اک ساتھ گزر جائیں خوشیوں میں بہم دونوں اور غم میں بہم دونوں جس طرح کہ برگ گل رہتے ہیں صدا یکجا شعلوں میں بہم دونوں شبنم میں بہم دونوں
زندگانی کے حسیں لمحے خوشی کے وقفے یوں اچانک مرے ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں جس طرح تتلی کے رنگین سبک نازک پر دوڑتے بچوں کے ہاتھوں سے پھسل جاتے ہیں
خزاں کے بعد تو ہر سال یوں بہار آئی گئی جو رات تو پھر صبح بار بار آئی جوں ہی شباب نے اک بار پھیر لیں نظریں پلٹ کے حسن ملاحت نہ ایک بار آئی
اس کا کیا غم کہ ہوا رنگ جوانی رخصت داستاں وصل کی فرقت کی کہانی رخصت اب بھی میں قصر بناتا ہوں حسیں راتوں میں چاہتا ہوں کہ نہ ہو یاد سہانی رخصت
اس حسیں جام میں ہیں غلطیدہ کتنے نازک تخیلات کے موڑ کتنے گل آفریں لبوں کا رس کتنے رنگین آنچلوں کا نچوڑ
انگڑائی یہ کس نے لی ادا سے کیسی یہ کرن فضا میں پھوٹی کیوں رنگ برس پڑا چمن میں کیا قوس قزح لچک کے ٹوٹی
دور وادی میں یہ ندی اخترؔ کتنے میٹھے سروں میں گاتی ہے صبح کے اس حسیں دھندلکے میں کیا یہیں بھیرویں نہاتی ہے
آ کہ ان بد گمانیوں کی قسم بھول جائیں غلط سلط باتیں آ کسی دن کے انتظار میں دوست کاٹ دیں جاگ جاگ کر راتیں