عشق کی ابتدا ہے سوز دروں
عشق کی ابتدا ہے سوز دروں عشق کی انتہا ہے ذوق نگاہ دل اگر سرد ہے تو عشق جنوں اور اگر پست ہے نظر تو گناہ
عشق کی ابتدا ہے سوز دروں عشق کی انتہا ہے ذوق نگاہ دل اگر سرد ہے تو عشق جنوں اور اگر پست ہے نظر تو گناہ
دل کی ہر آرزو ہے خوابیدہ اب نہ وہ کیفیت نہ سوز نہ رنگ ہر نظر ایک شعلۂ بے نور ہر نفس ایک ساز بے آہنگ
لہو فقیروں کا سوز یقیں سے تھا جب گرم وہ نوچتے تھے گریبان بادشاہوں کے رہی نہ سینے میں جس دم حرارت ایماں سمٹ کے رہ گئے گوشوں میں خانقاہوں کے
جوانی کے زمانے یاد آئے محبت کے فسانے یاد آئے بھلانے پر بھی ان کی یاد آئی مجھے وہ ہر بہانے یاد آئے
ترے فراق میں زہراب غم پیے جاؤں ہزار موت کے صدمے سہوں جیے جاؤں بغیر دوست کے جینا گناہ ہے لیکن جو تو کہے تو میں یہ بھی گناہ کیے جاؤں
نہ جانے کٹ گیا کس بے خودی کے عالم میں وہ ایک لمحہ گزرتے جسے زمانہ لگے وہ ذوق و شوق محبت کی واردات نہ پوچھ جو آج خود بھی سنوں میں تو اک فسانہ لگے
ہر خزاں غارت گر چمن ہی سہی پھر بھی اک سر خوشی بہار میں ہے موت پر اختیار ہو کہ نہ ہو زندگی اپنے اختیار میں ہے
جو سفر بھی تھا زندگانی کا یونہی بے رسم و راہ ہم نے کیا خود گناہوں کو شرم آئی ہے ایسا ایسا گناہ ہم نے کیا
آج کچھ مضمحل سی یادوں کے یوں سلگنے لگے ہیں افسانے جیسے اک نیم سوز شمع کے گرد سسکیاں لے رہے ہوں پروانے
اتنے اپنوں میں کوئی ایک نہ اپنا نکلا اے مرے شہر بتا میں بھی کہاں آ نکلا لوگ نظریں بھی چرانے لگے ہم سایوں سے درمیاں فاصلہ رکھنے کا چلن کیا نکلا