ابھی نہ رات کے گیسو کھلے نہ دل مہکا
ابھی نہ رات کے گیسو کھلے نہ دل مہکا کہو نسیم سحر سے ٹھہر ٹھہر کے چلے ملے تو بچھڑے ہوئے میکدے کے در پہ ملے نہ آج چاند ہی ڈوبے نہ آج رات ڈھلے
ابھی نہ رات کے گیسو کھلے نہ دل مہکا کہو نسیم سحر سے ٹھہر ٹھہر کے چلے ملے تو بچھڑے ہوئے میکدے کے در پہ ملے نہ آج چاند ہی ڈوبے نہ آج رات ڈھلے
رنگ افشاں ہو جس طرح امید الجھے الجھے حسیں خیالوں میں ہنس رہا تھا گلاب کا اک پھول یوں کسی کے سیاہ بالوں میں
دل پہ لگتے ہیں سیکڑوں نشتر روح میں بے کلی سی پاتا ہوں یاد آتی ہے جب تری اے دوست جانے کیوں خود کو بھول جاتا ہوں
دل میں نہ جانے کتنی امیدیں لئے ہوئے اک مہ جمال آج رہا محو انتظار غنچوں کے بادہ ریز تبسم سے جس طرح رنگینیوں میں غرق گلستان پر بہار
شمع زریں کی نرم لو اے دوست جب اندھیرے میں جگمگاتی ہے جانے کیوں غم زدہ تخیل کو تیری آواز یاد آتی ہے
چہرۂ آفاق کو دیتی ہے نور مہر عالم تاب کی تابندگی میرے دل کو بخشتی ہے اک سکوں نقشؔ یہ پچھلے پہر کی چاندنی
مسکرایا ہے یوں ترا چہرہ آج پھر طبع کی روانی میں صبح دم جس طرح کنول کا پھول یک بیک کھل اٹھا ہو پانی میں
جب کبھی عالم تصور میں وہ حسیں آنکھ مسکراتی ہے میرے سینے میں جانے کیوں ہمدم ایک بجلی سی دوڑ جاتی ہے
ہائے یہ سادگی و پرکاری روز اک واردات ہوتی ہے جو بیاں ہوتی ہے نگاہوں سے کتنی پیاری وہ بات ہوتی ہے
یہ چنبیلی کی ادھ کھلی کلیاں جیسے جھرمٹ حسیں ستاروں کا بارہا ہو چکی ہے گو تاراج پھر بھی کتنی حسین ہے دنیا