چار گنجے ایک دعوت میں جمع جب ہو گئے
چار گنجے ایک دعوت میں جمع جب ہو گئے ان کی چندیاؤں کے آگے روشنی تھی ماند ماند لوٹ کر جانے لگے تو میزباں نے یوں کہا آپ کے آنے سے محفل میں لگے تھے چار چاند
چار گنجے ایک دعوت میں جمع جب ہو گئے ان کی چندیاؤں کے آگے روشنی تھی ماند ماند لوٹ کر جانے لگے تو میزباں نے یوں کہا آپ کے آنے سے محفل میں لگے تھے چار چاند
تم رنگ ہو تم نور ہو تم شیشہ ہو تم جام کرنوں سے بھری صبح ہو تاروں سے بھری شام رنگین ہے سرشار ہے مستانہ ہے دنیا تم ہو تو نگاہوں میں پری خانہ ہے دنیا
پوچھتا کیا ہے ہم نشیں مجھ سے کس لیے ضبط آہ کرتا ہوں کہہ تو دوں تجھ سے حال دل اپنا تیری غم خواریوں سے ڈرتا ہوں
یہ ہوائیں تو موافق تھیں بہت کیوں ہواؤں نے ڈبو دی کشتی ایک طوفاں کے شناور نے کہا ناخداؤں نے ڈبو دی کشتی
کتنی ہنگامہ خو تمنائیں مضمحل ہو کے رہ گئیں دل میں جیسے طوفاں کی مضطرب موجیں سو گئی ہوں کنار ساحل میں
علم کے تھے بہت حجاب مگر حسن کا سحر پر فسوں ہی رہا عقل نے لاکھ کی عناں گیری عشق آمادۂ جنوں ہی رہا
اے دوست نہ پوچھ مجھ سے کیا ہے بے تابیٔ عشق کا فسانہ انسان کی زندگی ہے فانی اور دل کی تڑپ ہے جاودانہ
آنسوؤں میں الم کا رنگ نہ تھا قہقہوں میں خوشی کی بات نہ تھی تھے عجب ڈھنگ زندگانی کے کوئی بھی زندگی کی بات نہ تھی
اٹھاتے ہیں مزے جور و ستم کے کچھ ایسے خوگر بیدار ہیں ہم قفس کی تیلیاں ٹوٹیں تو پھر کیا اسیر الفت صیاد ہیں ہم
تمنا کچھ تو لے آتی ہے لب پر یہ کچھ قصے سناتی ہے نظر سے مگر ہے آنکھ ایسی راز پرور نظر کو بھی چھپاتی ہے نظر سے