میں بے نوا اڑا تھا بوسے کو ان لبوں کے
میں بے نوا اڑا تھا بوسے کو ان لبوں کے ہر دم صدا یہی تھی دے گزرو ٹال کیا ہے پر چپ ہی لگ گئی جب ان نے کہا کہ کوئی پوچھو تو شاہ جی سے ان کا سوال کیا ہے
میں بے نوا اڑا تھا بوسے کو ان لبوں کے ہر دم صدا یہی تھی دے گزرو ٹال کیا ہے پر چپ ہی لگ گئی جب ان نے کہا کہ کوئی پوچھو تو شاہ جی سے ان کا سوال کیا ہے
تڑپ ہے قیس کے دل میں تہ زمیں اس سے غزال دشت نشان مزار پاتے ہیں وگرنہ خاک ہوئے کتنے ہی محبت میں کسی کا بھی کہیں مشت غبار پاتے ہیں
بتاں کے عشق نے بے اختیار کر ڈالا وہ دل کہ جس کا خدائی میں اختیار رہا وہ دل کہ شام و سحر جیسے پکا پھوڑا تھا وہ دل کہ جس سے ہمیشہ جگر فگار رہا
خوب ہے خاک سے بزرگوں کی چاہتا تو مرے تئیں امداد پر مروت کہاں کی ہے اے میرؔ تو ہی مجھ دل جلے کو کر ارشاد
وزیر زماں نے لیا ایک اسپ کہ ہے رشک گلگون باد بہار نظر پوست سے اس کے آتا ہے خوں کیا جلد پر اس کے گل کو نثار اڑا کر اسے بارہا سیر کی نہ نکلا کبھو ابلق روزگار کروں اس کی کیا تیزگامی کی شرح ہرن اس پہ شمشیر سے ہو شکار ٹک اک کسمساوے جو راکب تو پھر نہیں اس کو رانوں میں ہرگز قرار جہاں باگ ...
نہ آیا وہ تو کیا ہم نیم جاں بھی بغیر اس کے ملے دنیا سے جاویں چلی ہے تو تو اے جان المناک ٹک اک رہ جا کہ ہم رخصت ہو آویں
میرؔ کو ضعف میں میں دیکھ کہا کچھ کہئے ہے تجھے کوئی گھڑی قوت گفتار ہنوز ابھی اک دم میں زباں چلنے سے رہ جاتی ہے درد دل کیوں نہیں کرتا ہے تو اظہار ہنوز
پھولوں کی سیج پر سے جو بے دماغ اٹھے مسند پہ ناز کی جو تیوری چڑھا کے بیٹھے کیا غم اسے زمیں پر بے برگ و ساز کوئی خار و خسک ہی کیوں نہ برسوں بچھا کے بیٹھے
دنیا سے در گزر کہ گزر گہہ عجب ہے یہ درپیش یعنی میرؔ ہے جانا جہاں سے بھی لشکر میں ہے مبیت اسی بات کے لئے کہتے ہیں لوگ کوچ ہے کل صبح یاں سے بھی
ہوا ہے اہل مساجد پہ کام از بس تنگ نہ شب کو جاگتے رہنے کا اضطراب کرو خدا کریم ہے اس کے کرم سے رکھ کر چشم دراز کھینچو کسو میکدے میں خواب کرو