افطار صوم کی کچھ اگر دستگاہ ہو
افطار صوم کی کچھ اگر دستگاہ ہو اس شخص کو ضرور ہے روزہ رکھا کرے جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے
افطار صوم کی کچھ اگر دستگاہ ہو اس شخص کو ضرور ہے روزہ رکھا کرے جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے
ہوئی جب میرزا جعفر کی شادی ہوا بزم طرب میں رقص ناہید کہا غالبؔ سے تاریخ اس کی کیا ہے تو بولا انشراح جشن جمشید
ہند میں اہل تسنن کی ہیں دو سلطنتیں حیدرآباد دکن رشک گلستان ارم رامپور اہل نظر کی ہے نظر میں وہ شہر کہ جہاں ہشت بہشت آ کے ہوئے ہیں باہم حیدرآباد بہت دور ہے اس ملک کے لوگ اس طرف کو نہیں جاتے ہیں جو جاتے ہیں تو کم رام پور آج ہے وہ بقعہ معمور کہ ہے مرجع و مجمع اشراف نژاد آدم رام پور ایک ...
اے شہنشاہ آسماں اورنگ اے جہاں دار آفتاب آثار تھا میں اک بے نواے گوشہ نشیں تھا میں اک درد مند سینہ فگار تم نے مجھ کو جو آبرو بخشی ہوئی میری وہ گرمی بازار کہ ہوا مجھ سا ذرہ ناچیز روشناس ثوابت و سیار گرچہ از روے ننگ بے ہنری ہوں خود اپنی نظر میں اتنا خوار کہ گر اپنے کو میں کہوں ...
خوشی ہے یہ آنے کی برسات کے پییں بادۂ ناب اور آم کھائیں سر آغاز موسم میں اندھے ہیں ہم کہ دلی کو چھوڑیں لوہارو کو جائیں سو اناج کے جو ہے مقلوب جاں نہ واں آم پائیں نہ انگور پائیں ہوا حکم باورچیوں کو کہ ہاں ابھی جا کے پوچھو کہ کل کیا پکائیں وہ کھٹے کہاں پائیں املی کے پھول وہ کڑوے کریلے ...
نصرت الملک بہادر مجھے بتلا کہ مجھے تجھ سے جو اتنی ارادت ہے تو کس بات سے ہے گرچہ تو وہ ہے کہ ہنگامہ اگر گرم کرے رونق بزم مہ مہر تری ذات سے ہے اور میں وہ ہوں کہ گر جی میں کبھی غور کروں غیر کیا خود مجھے نفرت مری اوقات سے ہے خستگی کا ہو بھلا جس کے سبب سے سر دست نسبت اک گونہ مرے دل کو ترے ...
ہزار شکر کہ سید غلام بابا نے فراز مسند عیش و طرب جگہ پائی زمیں پہ ایسا تماشا ہوا برات کی رات کہ آسماں پہ کواکب بنے تماشائی
بس کہ فعال ما یرید ہے آج ہر سلح شور انگلستاں کا گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا شہر دہلی کا ذرہ ذرہ خاک تشنۂ خوں ہے ہر مسلماں کا کوئی واں سے نہ آ سکے یاں تک آدمی واں نہ جا سکے یاں کا میں نے مانا کہ مل گئے پھر ...
گو ایک بادشاہ کے سب خانہ زاد ہیں دربار دار لوگ بہم آشنا نہیں کانوں پہ ہاتھ دھرتے ہیں کرتے ہوئے سلام اس سے ہے یہ مراد کہ ہم آشنا نہیں
منظور ہے گزارش احوال واقعی اپنا بیان حسن طبیعت نہیں مجھے سو پشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری کچھ شاعری ذریعۂ عزت نہیں مجھے آزادہ رو ہوں اور مرا مسلک ہے صلح کل ہر گز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے کیا کم ہے یہ شرف کہ ظفر کا غلام ہوں مانا کہ جاہ و منصب و ثروت نہیں مجھے استاد شہ سے ہو مجھے ...