سہل تھا مسہل و لے یہ سخت مشکل آپڑی
سہل تھا مسہل و لے یہ سخت مشکل آپڑی مجھ پہ کیا گزرے گی اتنے روز حاضر بن ہوے تین دن مسہل سے پہلے تین دن مسہل کے بعد تین مسہل تین تبریدیں یہ سب کے دن ہوے
سہل تھا مسہل و لے یہ سخت مشکل آپڑی مجھ پہ کیا گزرے گی اتنے روز حاضر بن ہوے تین دن مسہل سے پہلے تین دن مسہل کے بعد تین مسہل تین تبریدیں یہ سب کے دن ہوے
ہے جو صاحب کے کف دست پہ یہ چکنی ڈلی زیب دیتا ہے اسے جس قدر اچھا کہیے خامہ انگشت بدنداں کہ اسے کیا لکھیے ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے مہر مکتوب عزیزان گرامی لکھیے حرز بازوے شگرفان خود آرا کہیے مسی آلودہ سر انگشت حسیناں لکھیے داغ طرف جگر عاشق شیدا کہیے حاتم دست سلیماں کے ...
مقام شکر ہے اے ساکنان خطہ خاک رہا ہے زور سے ابر ستارہ بار برس کہاں ہے ساقی مہوش کہاں ہے ابر مطیر بیار لامئے گلنار گوں ببار برس خدا نے تجھ کو عطا کی ہے گوہر افشانی در حضور پر اے ابر بار بار برس ہر ایک قطرے کے ساتھ آئے جو ملک وہ کہے امیر کلب علی خاں جییں ہزار برس فقط ہزار برس پر کچھ ...
اس کتاب طرب نصاب نے جب آب و تاب انطباع کی پائی فکر تاریخ سال میں مجھ کو ایک صورت نئی نظر آئی ہندسے پہلے سات سات کے دو دیے ناگاہ مجھ کو دکھلائی اور پھر ہندسہ تھا بارہ کا با ہزاراں ہزار زیبائی سال ہجری نو ہو گیا معلوم بے شمول عبارت آرائی مگر اب ذوق بذلہ سنجی کو ہے جداگانہ ...
سلیم خاں کہ وہ ہے نور چشم واصل خاں حکیم حاذق و دانا ہے وہ لطیف کلام تمام دہر میں اس کے مطب کا چرچا ہے کسی کو یاد بھی لقمان کا نہیں ہے نام اسے فضائل علم و ہنر کی افزایش ہوئی ہے مبدع عالم سے اس قدر انعام کہ بحث علم میں اطفال ابجدی اس کے ہزار بار فلاطوں و دے چکے الزام عجیب نسخہ نادر ...
سیہ گلیم ہوں لازم ہے میرا نام نہ لے جہاں میں جو کوئی فتح و ظفر کا طالب ہے ہوا نہ غلبہ میسر کبھی کسی پہ مجھے کہ جو شریک ہو میرا شریک غالبؔ ہے
خجستہ انجمن طوے میرزا جعفر کہ جس کے دیکھے سے سب کا ہوا ہے جی محظوظ ہوئی ہے ایسے ہی فرخندہ سال میں غالبؔ نہ کیوں ہو مادۂ سال عیسوی محظوظ
کلکتے کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہاے ہاے وہ سبزہ زار ہاے مطرا کہ ہے غضب وہ نازنیں بتان خود آرا کہ ہاے ہاے صبر آزما وہ ان کی نگاہیں کہ حف نظر طاقت ربادہ ان کا اشارا کہ ہاے ہاے وہ میوہ ہاے تازۂ شیریں کہ واہ واہ وہ بادہ ہاے ناب گوارا کہ ہاے ہاے
جب کہ سید غلام بابا نے مسند عیش پر جگہ پائی ایسی رونق ہوئی برات کی رات کہ کواکب ہوے تماشائی
مسلمانوں کے میلوں کا ہوا قل پجے ہے جوگ مایا اور دیبی نشاں باقی نہیں ہے سلطنت کا مگر ہاں نام کو اورنگ زیبی