ندی نالے سمندر اور دریا پار کرتے ہیں
ندی نالے سمندر اور دریا پار کرتے ہیں اگر صحرا مقابل ہو اسے گلزار کرتے ہیں ضیاؔ سورج ہتھیلی پر سجا لینا تو آساں ہے زمانے کا جو مستقبل ہے ہم تیار کرتے ہیں
ندی نالے سمندر اور دریا پار کرتے ہیں اگر صحرا مقابل ہو اسے گلزار کرتے ہیں ضیاؔ سورج ہتھیلی پر سجا لینا تو آساں ہے زمانے کا جو مستقبل ہے ہم تیار کرتے ہیں
میں معلم ہوں کہ تدریس ہے میرا شیوہ نا مہذب کو میں تہذیب کی ضو دیتا ہوں میری ہستی ہے ضیاؔ خلق و مروت کا چراغ میں زمانے کو نئے عزم کی لو دیتا ہوں
گڑگانویں کی ہے جتنی رعیت وہ یک قلم عاشق ہے اپنے حاکم عادل کے نام کی سویہ نظر فروز قلم دان نذر ہے مسٹر کوان صاحب عالی مقام کی
اے شہنشاہ فلک منظر بے مثل و نظیر اے جہاندار کرم شیوۂ بے شبہ و عدیل پانو س تیرے ملے فرق ارادت اورنگ فرق سے تیرے کرے کسب سعادت اکلیل تیرا انداز سخن شانۂ زلف الہام تیری رفتار قلم جنبش بال جبریل تجھ سے عالم پہ کھلا رابطۂ قرب کلیم تجھ سے دنیا میں بچھا مائدہ بذل خلیل بہ سخن اوج وہ مرتبۂ ...
ہے چار شنبہ آخر ماہ صفر چلو رکھ دیں چمن میں بھر کے مئے مشکبو کی ناند جو آئے جام بھر کے پیے اور ہو کے مست سبزے کو روندتا پھرے پھولوں کو جائے پھاند غالبؔ یہ کیا بیاں ہے بجز مدح بادشاہ بھاتی نہیں ہے اب مجھے کوئی نوشت خواند بٹتے ہیں سونے روپے کے چھلے حضور میں ہے جن کے آگے سیم و زر مہر و ...
دیکھنے میں ہیں گرچہ دو پر ہیں یہ دونوں یار ایک وضع میں گو ہوئی دو سر تیغ ہے ذوالفقار ایک ہم سخن و ہم زباں حضرت قاسم و طپاں ایک طیش کا جانشیں درد کا یادگار ایک نقد سخن کے واسطے ایک عیار آگہی شعر کے فن کے واسطے مایۂ اعتبار ایک ایک وفا و مہر میں تازگی بساط دہر لطف و کرم کے باب میں زینت ...
مژدہ اے رہروان راہ سخن پایہ سنجان دست گاہ سخن طے کرو راہ شوق زودا زود آن پہنچی ہے منزل مقصود پاس ہے اب سواد اعظم نثر دیکھیے چل کے نظم عالم نثر سب کو اس کا سواد ارزانی چشم بینش ہو جس سے نورانی یہ تو دیکھو کہ کیا نظر آیا جلوۂ مدعا نظر آیا ہاں یہی شاہراہ دہلی ہے مطبع بادشاہ دہلی ...
ہندوستان کی بھی عجب سر زمین ہے جس میں وفا و مہر و محبت کا ہے وفور جیسا کہ آفتاب نکلتا ہے شرق سے اخلاص کا ہوا ہے اسی ملک سے ظہور ہے اصل تخم ہند سے اور اس زمین سے پھیلا ہے سب جہان میں یہ میوہ دور دور
گئے وہ دن کہ نادانستہ غیروں کی وفاداری کیا کرتے تھے تم تقریر ہم خاموش رہتے تھے بس اب بگڑے پہ کیا شرمندگی جانے دو ہل جاؤ قسم لو ہم سے گر یہ بھی کہیں کیوں ہم نہ کہتے تھے
نہ پوچھ اس کی حقیقت حضور والا نے مجھے جو بھیجی ہے بیسن کی روغنی روٹی نہ کھاتے گیہوں نکلتے نہ خلد سے باہر جو کھاتے حضرت آدم یہ بیسنی روٹی