میری فکر و نظر کے چہرے پر
میری فکر و نظر کے چہرے پر حادثوں کی کئی خراشیں ہیں یہ مرے شعر میرے شعر نہیں ایک صد چاک دل کی قاشیں ہیں
میری فکر و نظر کے چہرے پر حادثوں کی کئی خراشیں ہیں یہ مرے شعر میرے شعر نہیں ایک صد چاک دل کی قاشیں ہیں
میں تو کیا مجھ کو دیکھنے والا اب مری بے بسی پہ روتا ہے بات کرتا ہوں ہونٹ جلتے ہیں سانس لیتا ہوں درد ہوتا ہے
چوٹ کھا کر بھی مسکراتا ہوں درد دل سے بھی لطف اٹھاتا ہوں دوست ہی خندہ زن نہیں مجھ پر خود بھی اپنی ہنسی اڑاتا ہوں
لاکھ کاٹو رگیں صداقت کی کب صداقت کی روح مرتی ہے اس کے اک ایک قطرۂ خوں سے اک نئی زندگی ابھرتی ہے
کیف پر بھی ہے کیف کا عالم آج مستی بھی محو مستی ہے بات کرتا ہوں پھول جھڑتے ہیں آنکھ اٹھاتا ہوں مے برستی ہے
ساقیا ساقیا سنبھال اسے پھینک دیوے نہ کوئی جال اسے گردش روزگار آئی ہے ایک دو ساغروں سے ٹال اسے
روح کی آنچ میں ابالا ہے مدتوں خون دل سے پالا ہے اپنے شعروں میں جب کہیں میں نے زندگی کی تڑپ کو ڈھالا ہے
ستم سے آشنا ہونے کو چاہے کوئی جب برہنہ ہونے کو چاہے ہوا وہ چل پڑی ہے شخصیت کی کہ ہر بونا بڑا ہونے کو چاہے
اللہ اللہ یہ لرزش مژگاں جھٹپٹے کا ہے طرفہ راز و نیاز راگنی میں ڈھلا ہوا گویا رات کو گھومتے کرے کا گداز
صرف کہہ دوں کہ ناؤ ڈوب گئی یا بتاؤں کہ کیسے ڈوبی تھی تم کہانی تو خیر سن لو گی آپ بیتی کہوں کہ جگ بیتی