میری غمگین و زرد صورت کو
میری غمگین و زرد صورت کو دیکھ لیتے ہیں جب کبھی احباب مجھ سے طنزاً سوال کرتے ہیں شادؔ صاحب پیو گے اب بھی شراب
میری غمگین و زرد صورت کو دیکھ لیتے ہیں جب کبھی احباب مجھ سے طنزاً سوال کرتے ہیں شادؔ صاحب پیو گے اب بھی شراب
تو مری زندگی کا پرتو ہے میں تری آرزو کا سایا ہوں پھر بھی تجھ کو میں حد امکاں تک احتیاطاً پکار آیا ہوں
لے کے دل درد پائیدار دیا چاندنی کے عوض غبار دیا شرم آتی ہے آپ سے کہتے آپ کی دوستی نے مار دیا
کیسے بے سوز لوگ ہو یارو کیا خبر کس جہاں میں رہتے ہو میرے احساس کے شرارے ہیں تم جنہیں میرے شعر کہتے ہو
ڈس گئی تیری کائنات مجھے کھا گئے تیرے حادثات مجھے جانے کیوں پھر بھی آج تک تجھ پر پیار آتا ہے اے حیات مجھے
چاندنی سے دھلی ہوئی راتیں ایک گلفام سے ملاقاتیں میرے ماضی مرے حسیں ماضی ہائے کیا ہو گئیں تری باتیں
غم کی راتوں کے خواب لایا ہوں ہدیۂ اضطراب لایا ہوں شوخ لفظوں کے آبگینوں میں آنسوؤں کی شراب لایا ہوں
سرحد ہوش سے گزرتا ہوں ڈوبتا ہوں کبھی ابھرتا ہوں دیکھ کر تیری مدھ بھری آنکھیں میں خود اپنی تلاش کرتا ہوں
اس غم و یاس کے سمندر میں کوئی آسودگی کی لہر نہیں زندگی ہچکیوں کی نگری ہے زندگی قہقہوں کا شہر نہیں
چاندنی رات کی خموشی میں یوں کوئی مہ جمال آتا ہے ایک شاعر کے ذہن میں جیسے خوب صورت خیال آتا ہے